تراویح کی فضیلت

تراویح کی فضیلت



نماز تراویح ایک ایسی عبادت ہے جو صرف ماہ رمضان المبارک ہی میں ادا کرنا مسنون ہے اور یہ زمانہ رسالت سے آج تک مسلمانوں میں متواتر رائج چلی آرہی ہے۔ نماز تراویح کی ترغیب خود نبی اکرم نے دی ہے۔ آپ نے فرمایا جس شخص نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے..
شرح صحیح مسلم میں امام نووی نے لکھا ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہے۔ دیگر مشارحین حدیث نے بھی اس سے مراد نماز تراویح ہی قرار دی ہے۔ صحیحین کی بعض روایات کے مطابق نبی اکرم نے نماز تراویح پڑھی لیکن مصلحنا جماعت کے ساتھ پورا مہینہ نہیں پڑھی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم آدھی رات کے وقت مسجد تشریف لے گئے اور نماز ادا کی۔ لوگوں نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھتی شروع کر دی۔ صبح لوگوں نے رات کی نماز کا آپس میں تذکرہ کیا۔ چنانچہ پہلی مرتبہ سے زیادہ لوگ (انگلی رات میں ) جمع ہو گئے۔ دوسری رات نبی اکرم تشریف لے گئے اور لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر لوگوں نے صبح اس واقعہ کا دیگر لوگوں سے ذکر کیا تو تیسری رات مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ رسول اللہ تشریف لائے اور لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی اور چوتھی رات کو اس قدرصحابہ جمع ہوئے کہ مسجد میں جگہ تنگ پڑ گئی اور رسول اللہ ان (لوگوں) کے پاس تشریف نہیں لائے ۔ چنانچہ لوگوں نے ” نماز نماز پکارنا شروع کر دیا مگر رسول اللہ تشریف نہیں لائے حتی کہ صبح کی نماز کے وقت تشریف لائے ۔ جب صبح کی نماز ہو گئی تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے ۔ کلمہ شہادت پڑھا اور اس کے بعد فرمایا: ”گزشتہ رات تمہارا حال مجھ پرمخفی نہ تھا لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ تم پر رات
کی نماز (تراویح) فرض کر دی جائے گی اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ گے ۔ (مسلم) یہ بات واضح ہے کہ نبی اکرم کو نماز تراویح با جماعت پسند تھی ،مگر اس خوف سے کہ کہیں اللہ تعالی اسے فرض ہی قرار نہ دے دیں، آپ نے تسلسل کے ساتھ مسجد میں باجماعت یہ نماز ادا نہیں فرمائی۔ پھر اس طرح حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بن خطاب کے ابتدائی دور میں الگ الگ بغیر جماعت نماز تراویح کا سلسلہ رہا تا آنکہ حضرت عمر فاروق نے ایک روز مسلمانوں کو حضرب ابی بن کعب کی امامت میں مسجد میں نماز تر او یکی با جماعت کیلئے جمع فرمایا ، 
پس اس روز سے رمضان کے پورے ماہ میں باجماعت نماز تراویح 20 رکعت ادا کرنے کا رواج ہوا ہے 

نماز تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام بھی سب سے پہلے حضرت عمر فاروق نے ہی کیا کہ ماہ رمضان میں نماز تراویح میں ایک بار مکمل قرآن کریم تلاوت کیا جائے ۔ چنانچہ آپ کی قائم کردہ اس سنت پر دنیا بھر کے مسلمان آج بھی عمل پیرا ہیں۔ نماز تراویح میں جس تیز رفتاری سے قرآن کریم پڑھا جاتا ہے وہ نماز تراویح یعنی قیام رمضان کی اصل روح کے سراسر منافی ہے۔ نماز تراویح کا قیام رمضان کا مقصد تو یہ تھا کہ عام مہینوں کی نسبت اس ماہ میں زیادہ دیر تک راتوں کو عبادت کی جائے اور قرآن کریم زیادہ اہتمام کے ساتھ کثرت سے تلاوت و ساعت کیا جائے ۔ لیکن اکثر لوگ ایسے حافظ یا امام کے پیچھے نماز تراویح پڑھنا پسند کرتے ہیں جو انہیں جلد از جلد تر اویح پڑھا کر فارغ کر دے۔
نوجوان طبقہ خاص طور سے اس طرف مائل دکھائی دیتا ہے اور ایسی بہت سی مساجد جہاں مناسب رفتار سے ترتیل کے ساتھ الفاظ کی صحیح ادائیگی کا لحاظ کرتے ہوئے نماز تراویح میں تلاوت ہوتی ہو، مقتدیوں کی زیادہ تعداد دکھائی نہیں دیتی لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اب سرے سے ایسے لوگ ہی نہیں جو سکون و اطمینان سے تراویح میں تلاوت کلام حکیم حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ سنتا نہ چاہتے ہوں، بلاشبہ ایسے نیک لوگ زیادہ ہیں، نماز کے تمام ارکان کو ٹھہر ٹھہر کر اور سکون سے ادا کر نا تعدیل ارکان کہلاتا ہے ۔ فتاوی عالمگیری اور فقہ وفتاوی کی دیگر کتابوں میں لکھا ہے کہ تعدیل ارکان اعضاء کے ایسے سکون کو کہتے ہیں کہ اعضاء کے سب جوڑ کم از کم ایک بار تسبیح پڑھنے کی مقدار ٹھہر جائیں۔ ایسی نماز سے کیا حاصل ، جس سے روح نماز ہی غائب ہو اور پورا زور کسی نہ کسی طرح 20 رکعت کی تعداد پوری کرنے اور ان میں جلد از جلد سوا یا ڈیڑھ پارہ ختم کرنے پر صرف ہو رہا ہو۔


مکتب ایم ایف

Copyright @ 2013 مکتب ايم ايف اکيڈمی.

Distributed By Blogger Themes | Designed by Templateism | TechTabloids