Filled Under:

تفسیر القرآن سورہ الفاتحہ

تفسیر القرآن سورہ الفاتحہ




 آسان تفسیر

۱۰۴

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہر بان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں ۔ (1)

الفاتحة :

(۱) اس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ ہر جائز اور اچھا کام اللہ کے نام سے شروع کرنا چاہئے اور یہی رسول اللہ ] کا معمول مبارک تھا ، جن کاموں کو شروع کرنے کے لئے آپ صلى الله عليه وسلم سے کوئی خاص ذکر منقول ہے، اس موقع پر وہی ذکر پڑھا جائے گا، جیسے: کھانے سے پہلے ”بسم اللہ وبركة الله سونے سے پہلے ” اللهم باسمك أموت وأحيى‘ اور جانور ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ ، اللہ اکبر اور جن مواقع پر آپ صلى الله عليه وسلم سے کوئی ذکر منقول نہ ہو، ان کو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

شروع کرنا چاہئے ۔ بسم اللہ قرآن مجید کی ۱۱۳ سورتوں یعنی سوائے سورۂ توبہ کے تمام سورتوں میں آیا ہے اور سورہ نمل میں جزء آیت“ کی حیثیت سے آیا ہے؛ اس لئے اس پر اتفاق ہے کہ ”بسم اللہ قرآن مجید کا جزء ہے؛ البتہ سورتوں کے درمیان جو ”بسم اللہ آیا ہے ، وہ بطور علامت و امتیاز کے ہے ، سورتوں کا جزء نہیں ہے ،حضرت عبد اللہ بن سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سورتوں کا فصل بسم اللہ کے نازل ہونے سے جانتے تھے (ابوداؤد : کتاب الصلوة ، حدیث نمبر : ۷۸۸ ) اس لئے نماز میں ” بسم اللہ کو آہستہ پڑھنا ہے نہ کہ زور سے ، حضرت انس راوی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان صلى الله عليه وسلم کے پیچھے نماز ادا کی ، یہ حضرات اپنی قراءت ( یعنی : بلند آواز میں تلاوت ) اَلحَمدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ “ سے شروع فرماتے تھے ۔ (بخاری، باب ما یقول بعد التكبير،حدیث نمبر : ۷۴۳) رحمن اور رحیم“ دونوں کے معنی عربی زبان میں رحم کرنے والے کے ہیں ، اہل علم کا خیال ہے کہ ”رحمن‘ سے دنیا کی رحمت کی طرف اشارہ ہے اور رحیم سے آخرت کی رحمت کی طرف ؛ اس لئے کہ عربی زبان میں ”رحمن“ کے وزن پر آنے والے الفاظ میں شدت اور عجلت کے معنی پائے جاتے ہیں، جیسے:’سکران‘ ( جو حالت نشہ میں ہو ) ’غضبان ( جو غصہ کی حالت میں ہو ) ظاہر ہے کہ غصہ اور نشہ نہایت شدید کیفیت کے ساتھ طاری ہوتا ہے ،لیکن اس کا اثر جلد ہی جاتا رہتا ہے ، یہی حال دنیا میں اللہ کی رحمتوں کا ہے کہ یہ رحمت شدید ہے مؤمن ہو یا کافر ، فرمانبردار ہو یا نافرمان ، سب پر رحمت خداوندی کا سایہ موجود ہے، لیکن مرنے کے ساتھ ہی یہ رحمت کی چادر اٹھالی جائے گی اور ہر ایک کے ساتھ اس کے عمل کے مطابق معاملہ ہو گا۔ رحیم کے وزن پر جو الفاظ عربی میں آتے ہیں ، ان میں دوام و پائیداری کی کیفیت پائی جاتی ہے، جیسے ”جمیل‘ خوبصورت )’کریم ‘( شریف ) وغیرہ ، خوبصورتی اور شرافت عارضی وصف نہیں ، مستقل اور پائیدار وصف ہے ، آخرت میں جن لوگوں کو رحمت خداوندی حاصل ہوگئی ، وہ سدا کے خوش نصیب ہیں، پھر کبھی محرومی نہیں ؛ اسی لئے رحیم“ سے آخرت کی نہ ختم ہونے والی رحمت کی طرف اشارہ ہے۔



الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

ساری تعریف اللہ ہی کے لائق ہے (1) جو تمام جہانوں کے پالنے والے ہیں (۲) دی بے حد مہربان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں بدلہ کے دن کے مالک ہیں (۳) ( اے اللہ!) ہم صرف آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ (۴) ا

دود ) اگر مخلوق میں کوئی چیز قابل تعریف نظر آئے تو وہ اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے ؛ اس لئے اصل میں یہ بھی تعریف اللہ ہی کی ہے، یوں تو ہر مذہب میں خدا کی تعریف کرناسکھایا گیا ہے، لیکن چوں کہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کا نام نامی ہی ”احمد“ تھا، جس کے معنی ” خوب تعریف کرنے والے“ کے ہیں ؛ اس لئے آپ صلى الله عليه وسلم نے زندگی کے ہر عمل سے اللہ تعالیٰ کی حمد کو جوڑ دیا ہے، کھا کر فارغ ہوں تو اللہ کی حمد ، سوکر اٹھیں تو اللہ کی حمد ، استنجاء سے فراغت ہو تو اللہ کی حمد، چھینک آئے تو اللہ کی حمد ، یہاں تک کہ اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور مزاج پرسی کی جائے تب بھی کہا جائے : ” الحمد اللہ علی کل حال“ کہ ہر حال میں اللہ کی حمد کرتا ہوں ، آپ صلى الله عليه وسلم نے جس طرح مؤمن کی زبان کو حمد الہی سے تر کیا ہے، اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔

(۲) تمام جہانوں میں زمین، چاند، سورج، آسمان وغیرہ بھی داخل ہیں اور مختلف مخلوقات فرشتے ، جن ، انسان اور حیوانات وغیرہ بھی ”رب‘اس ذات کو کہتے ہیں جو درجہ بہ درجہ اور مرحلہ بہ مرحلہ کسی چیز کی پرورش اور دیکھ دیکھ کرے، اللہ کو رب العالمین“ کہہ کر اس طرف اشارہ ہے کہ تمام عالم ہرلمحہ خدا کی ربوبیت کا محتاج ہے، ایسا نہیں کہ اللہ نے کائنات کو پیدا کر کے چھوڑ دیا ہو، اب از خود پورانظام کائنات چل رہا ہو اور کائنات خدا کی محتاج نہ رہی ہو ؛ جیسا کہ بعض فلاسفہ اور ملحدین کا نقطہ نظر تھا، اسی غلط خیال کی تردید کے لئے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا بار بار ذکر کیا ہے۔

(۳) مالک وہ ہے جو اپنی ملکیت میں ہر طرح کے تصرف کا اختیار رکھتا ہو، آپ پتھر کے مالک ہیں ، تو آپ کو اختیار ہے کہ اس کو مسجد کے منبر میں لگائیں یا بیت الخلاء کے فرش میں ، قیامت کے دن کا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کامل مختار ہیں ، جس کا قصور چاہیں معاف کر دیں اور جس کو چاہیں سزا دیں، اسلام سے پہلے بعض مذاہب کے ماننے والوں کا خیال تھا کہ گنہگاروں کو گناہ کی سزاد یا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، وہ گناہ کو معاف نہیں کر سکتا، عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ کی بنیاد یہی ہے کہ ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ انسانیت کے گناہ کو معاف کرنا چاہتے تھے مگر ایسا کرنا اس کے لئے روانہیں تھا؛ اس لئے (نعوذ باللہ ) مجبور ہوکر اس نے اپنے بیٹے کو دنیا میں قربانی کے لئے بھیجا؛ تا کہ وہ انسانیت کے گناہ کا کفارہ بن سکے ،قرآن مجید نے اس کی تردید کے لئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت اور بدلہ کے دن کا مکمل مالک ہے۔ (۴) عبادت میں وہ تمام باتیں داخل ہیں جو بندگی کا حصہ ہیں، یعنی: نماز سجدہ، قربانی قسم نذر، کہ یہ صرف اللہ تعالی ہی کے لئے جائز ہیں، اللہ کے سوا کسی زندہ یا مردہ کے لئے جائز نہیں ، اور دُعاء صرف اللہ ہی سے کی جائے گی ، اللہ کے ماسوا سے استمداد اور استعانت حرام ہے۔



اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَ الْمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 

اللہ ہمیں درست راستہ پر چلائیے ، ان لوگوں کے راستہ پر جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے ، ان لوگوں کا راستہ نہیں جن پر غضب ہوا (۲) اور نہ ان لوگوں کا جو راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔ (۳) ایلی

کون لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے؟ خود قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے کہ وہ چار ہیں : ”انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین‘ (النساء:۲۹) گویا ان کی راہ پر چلنا اور ان کی پیروی کرنا دین میں مطلوب ہے، معلوم ہوا کہ قرآن مجید نے جہاں کہیں آباء واجداد کی اتباع سے منع کیا ہے، اس سے وہ آباء واجداد مراد ہیں ، جو حق راستے سے ہٹے ہوئے تھے ، جو لوگ راہ حق پر ثابت قدم تھے، ان کی راہ پر قائم رہنے کی تو دُعاء کرائی گئی ہے، اسی سے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے؛ کیوں کہ وہ

صالحین میں تھے۔ (۲) انسان کی گمراہی کا ہمیشہ دو میں سے ایک سبب ہوتا ہے، حق اور سچائی کی تلاش میں کوتاہی اور اس کی وجہ سے نادانستہ گمراہی کا ارتکاب’ضالین‘ سے یہ لوگ مراد ہیں ، دوسرے سچائی کو جاننے کے باوجود اس کا انکار، ایسے لوگ غضب شدید کے مستحق ہوتے ہیں، یہ مغضوب علیہم ہیں ، قرآن مجید نے ان دونوں گروہوں کی غلطی سے بچانے کے لئے دُعاء سکھائی ہے، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”مغضوب علیہم“ کا مصداق یہود اور ضالین سے مراد عیسائی ہیں ، ( مجمع الزوائد : ۳۱۴/۶، بحوالہ مسند أحمد، نیز دیکھئے صحیح ابن حبان : ۱۸۴/۱۶ ، عن عدی بن حاتم ) اس کا مقصود یہ ہے کہ مغضوب گروہوں اور قوموں میں ایک یہود اور گمراہوں اور ضالین میں ایک عیسائی ہیں ، نہ یہ کہ صرف یہی قومیں اس سے مراد ہیں، اور ایسا آپ نے اس لئے ارشاد فرمایا کہ عیسائیوں نے نبی برحق حضرت مسیح کے سلسلے میں افراط سے کام لیا اور ان کو رسول اللہ سے ” ابن اللہ ( خدا کا بیٹا ) بنا دیا؛ اس لئے وہ گمراہ ہوئے اور ضالین کے زمرہ میں داخل ہوئے ، یہودیوں نے اللہ کے پیغمبروں کے ساتھ تفریط کی ، ان کی ایذاء رسانی اور اہانت کے درپے ہوئے ؛ اس لئے بار بار اللہ کے غضب کا شکار ہوئے ، گویا اُمت کو دونوں باتوں سے منع فرمایا گیا ، اس سے بھی کہ اللہ کے نیک بندوں کے معاملہ میں افراط اور مبالغہ سے کام لیا جائے ، کہ یہی گمراہی کا پیش خیمہ ہے، اور اس سے بھی منع کیا گیا کہ ان کے بارے میں اہانت و تحقیر کا رویہ اختیار کیا جائے؛ کہ یہ خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ (۳) سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا مسنون ہے، اس کے معنی ہیں : ”اے رب ! قبول فرما لیجئے ابو میسرہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل نے آپ کو سورہ فاتحہ پڑھائی ، جب وَلَا الضَّالِينَ “ پر پہنچے تو کہا کہ آپ آمین کہیں ؛ چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم نے آمین کہا ، (مصنف ابن أبي شيبة ، باب ما ذكر في آمين الخ ، حدیث نمبر : ۸۰۴۴) اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے باہر بھی ”آمین“ کہنا مسنون ہے، نماز میں امام اور مقتدی دونوں آمین کہیں گے ، حدیث میں آمین کا زور سے کہنا بھی منقول ہے اور آہستہ کہنا بھی؛ اس لئے دونوں طرح آمین کہنا درست ہے؛ البتہ آہستہ کہنا افضل ہے؛ کیوں کہ ”آمین“ بالا تفاق دعاء ہے اور قرآن مجید نے دُعاء کا ادب یہی بتایا ہے کہ آہستہ کی جائے ، وَادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً“۔ (اعراف: ۵۵)

Copyright @ 2013 مکتب ايم ايف اکيڈمی.

Distributed By Blogger Themes | Designed by Templateism | TechTabloids