تعلیم کے بعض شعبے اور مسلمان

 



اللہ تعالیٰ نے دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں انسان کو جن امتیازی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ اس کے اندر علم کو حاصل کرنے کی صلاحیت ہے، علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اپنی صفت علم کا کم سے کم دوسو بارہ مواقع پر ذکر فرمایا ہے، حضرت آدم علیہ السلام کو جو اس دنیا کی خلافت عطا کی گئی ہے، وہ اسی لئے کہ ان کے اندر معلومات کو اخذ کرنے کی صلاحیت تھی ؛ چنانچہ حق تعالی کی طرف سے فرشتوں کے ساتھ ان کا امتحان لیا گیا اور بارگاہ الہی میں ہونے والے اس امتحان میں پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کامیابی سے ہمکنار ہوئے ، حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے کن کن چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا تھا؟ قرآن مجید نے اس سلسلہ میں مختصر لیکن جامع بات کہی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء ( ناموں ) کے علم سے نوازا گیا تھا وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَائَ كُلَّهَا (بقره: ۱۳) اسم کے معنی تو صرف نام کے ہیں جو کسی شئے کی نشاندھی کرتی ہے ؛ لیکن بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد صرف نام نہیں ہے؛ بلکہ کائنات کی وہ تمام چیزیں ہیں، جن کے نام رکھے جاسکتے ہیں، گو یا علم کا جو خفی خزانہ جہالت کے پردے سے نکل نکل کر باہر آرہا ہے اور جو قیامت تک آتارہے گا، جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے انسان مختلف ناموں سے موسوم کرتا ہے، ان ساری چیزوں کا علم حضرت آدم علیہ السلام کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے، جن کا ہر دور کی ضرورت کے اعتبار سے ظہور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

اسلام کی نظر میں بنیادی طور پر علم کی دو قسمیں ہیں، ایک : وہ علم جو انسان کے لئے نفع بخش ہو، خواہ دنیا کے لئے ہو یا آخرت کے لئے اور دوسرے: وہ علم جو بے فائدہ ہو، پہلا علم مطلوب ہے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اور دوسری قسم کا علم مذموم اور ناپسندیدہ ہے؛ چنانچہ آپ انے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے علم نافع کی دُعا کیا کرو اور بے فائدہ علم سے اللہ کی پناہ چاہو:’سلواعلمآنافعاً،وتعوذوا بالله من علم لا ينفع “ (سنن ابن ماجہ، عن عبد اللہ بن جابر ، حدیث نمبر : ۳۴۸۳) -- آج کل انسان کی ہلاکت و بر بادی اور دنیا کو تباہ و تاراج کرنے کے جو ہتھیار تیار کئے جارہے ہیں، یہ یقینا بے فائدہ علم میں شامل ہیں اور سوائے اس کے کہ کوئی ملک دفاع کے لئے اس پر مجبور ہو جائے ، اس کو اپنے وسائل تعمیری مقاصد کے بجائے ایسے تخریبی کاموں میں خرچ نہیں کرنا چاہئے ، مغربی طاقتیں جس طرح اپنی بہترین صلاحیتیں مہلک ہتھیاروں کے بنانے میں خرچ کر رہی ہیں ، یقیناً ان کو بد بختی کہا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے علم کی خصوصیت یہ رکھی ہے کہ جیسے ایمان انسان کے لئے بلندی کا ذریعہ ہے، اسی طرح علم بھی افراد اور قوموں کی سر بلندی و سرخروئی کی کلید ہے: يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا العِلمَ دَرَجَتٍ ( مجادلہ: 11) جولوگ علم سے آراستہ ہوں یا جو قوم علم و دانش کی دولت سے مالا مال ہو، وہ اور جو افراد اور قو میں علم سے محروم ہوں ، دونوں برابر نہیں ہو سکتے : قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: 9) علم کی ضرورت جہاں آخرت کی کامیابی کے لئے ہے، وہیں دنیا میں باعزت زندگی گزارنے اور بہتر مرتبہ ومقام حاصل کرنے کے لئے بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیائی میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو نبوت کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکمرانی کے سلیقہ سے بھی نوازاتھا اور مخلوقات سے متعلق بعض ایسے علوم دیئے گئے تھے، جہاں تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہوتی ، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہا السلام اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ علم کی اس دولت سے نواز کر اللہ نے ہمیں بہت سارے مسلمان بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے: وَقَالَا الحَمدُ لِلهِ الَّذِي فَضَّلْنَا عَلَى كَثِيرٍ من عِبَادِهِ المُؤمِنِينَ ((امل: ۱۵) دنیا میں اقتدار میں شرکت، کاروبار حکومت میں شمولیت اور نظم و نسق کی انجام دہی میں بھی علمی بصیرت اور معلومات کا مہیا ہونا ضروری ہے، اسی لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے جب مصر کے حکمراں سے پیشکش کی کہ جو اقتصادی بحران مستقبل میں آنے والا ہے اور جو بظاہر پورے ملک کو دانہ دانہ کا محتاج بنادے گا، اس سے نبرد آزما ہونے کے سلسلہ میں، میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں اور آپ کے خزانہ کی ذمہ داری سنبھال سکتا ہوں ،تو اس پیشکش کے ساتھ آپ نے یہ دلیل دی کہ میرے اندر سرکاری خزانے کی حفاظت و نگہداشت کی صلاحیت بھی ہے اور میں علم کی دولت سے بہرہ ور بھی ہوں: اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الأَرْضِ إِنِّی حَفِيظٌ عَلِیم (یوسف: ۵۵)

حکومت واقتدار کی اہمیت ہر ملک میں ہے، لیکن جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہوں ، وہاں اقتدار میں ساجھے داری اور سرکاری نظم و نسق میں شمولیت مسلمانوں کے ملی بقاء کے لئے بے حد ضروری ہے؛ کیوں کہ عام طور پر اکثریت چاہتی ہے کہ وہ اقلیت کو ہضم کر جائے ، اس کے تشخص کو مٹادے تعلیمی اور معاشی اعتبار سے اس کو پنپنے کا موقع نہیں دے، ہندوستان میں مسلمان اس وقت اسی صورت حال سے دو چار ہیں ، ان کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی ضرب المثل بن چکی ہے، جس قوم نے اس ملک پر صدیوں حکومت کی ، وہ آج ایک بے تو قیر گروہ کی حیثیت سے زندگی کا سفر طے کر رہی ہے، اس صورت حال سے نکلنے کے لئے جہاں دین سے گہری وابستگی اور باہمی اتحادضروری ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ یہ امت علم وتحقیق کے میدان میں آگے بڑھے اور زندگی کے مختلف میدانوں میں موثر کردار ادا کرنے کے لائق بن جائے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ مسلمان مختلف حادثات سے سبق حاصل کرتے رہے ہیں اور جب بھی کوئی مصیبت اس پر آئی ہے، غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک نئے حوصلہ کے ساتھ قدم بڑھایا ہے تقسیم ہند کے بعد سے جب فرقہ وارانہ حملہ شروع ہوا، پولیس اور فسادیوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ شروع کیا، تو ۱۷۹۱ ء تک مسلمانوں کی یہ کیفیت رہی کہ لوگ فسادیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتے اور بہت سی دفعہ ان کی منزل موجودہ بنگلہ دیش کی سرزمین ہوتی ، وہ اس کو اپنے لئے ایک گوشہ عافیت تصور کرتے ، لیکن جب پاکستان کی ناعاقبت اندیشی کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بن گیا تو انھوں نے محسوس کر لیا کہ بہر حال ان کو اب اس ملک میں جینا اور مرنا ہے؛ اس لئے انھوں نے حوصلہ و ہمت کو جمع کیا اور اس کی وجہ سے فسادات کے نتائج اور آبادی کے ارتکاز میں ایک مثبت تبدیلی ظاہر ہونے لگی، پھر ۲۷۹۱ء میں جب حکومت ہند نے متبنی سے متعلق ایک ایسا قانون لانے کی کوشش کی جو شریعت اسلامی سے متصادم تھا اور مسلمانوں نے محسوس کیا کہ حکومت جان و مال کے بعد اب مسلمانوں کے دین و شریعت پر بھی ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے، تو انھوں نے اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ساتھ بیٹھنے اور مشترکہ مسائل کے لئے متحدہ جد و جہد کرنے کا سبق سیکھا اور اس طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسا متحدہ پلیٹ فارم وجود میں آیا۔ ۲۹۹۱ء میں بابری مسجد کی شہادت کا وہ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا، جس نے پوری ملت اسلامیہ کو ہلا کر رکھ دیا، ان حادثات کے بعد مسلمانوں نے ایک نئی کروٹ لی، انھوں نے محسوس کیا کہ ان کو قصداً انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے اور وہ خود اپنی جدوجہد کے ذریعہ ہی اس ملک میں ایک باوقار امت کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں؛ چنانچہ ملک کے مختلف علاقوں میں تعلیمی اور معاشی جدوجہد شروع ہوئی ،مسلمانوں نے سرکاری ملازمت پر تکیہ کرنے کے بجائے تجارت، چھوٹی صنعت اور بیرون ملک ملازمت پر توجہ دی، غیر سودی قرض کے ادارے قائم کئے اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کو روزگار کے اعتبار سے خود مکتفی بنانے کی کوششیں کی گئیں ، بحمد اللہ ان کوششوں کے بہتر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تعلیم کی طرف بھی مسلمانوں کی توجہ بڑھی ہے، انھوں نے پرائمری سے لے کر ڈگری اور پی جی کی سطح کے ہزاروں ادارے قائم کئے ہیں، ملک کے مختلف حصوں میں اور خاص کر جنوبی ہند میں پیشہ ورانہ تعلیم کے بہت سے ادارے قائم کئے ، اب ہزاروں کی تعداد میں مسلمان طلبہ میڈیکل انجینئر نگ، ایم بی اے، ایم سی اے اور آئی ٹی وغیرہ کی سندیں لے کر نکل رہے ہیں، اگر چہ اعلی تعلیم کے بیشتر ادارے ملک کے جنوبی علاقہ میں قائم ہیں ، لیکن ان کا فائدہ پورے ملک کے نوجوان مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے، یہ یقینا ایک خوش آئند بات ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن غور کرنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیم کے جن شعبوں کی طرف مسلمانوں کی توجہ بڑھی ہے، عام طور پر اس کا فائدہ ان کی ذات یا ان کے خاندان کو پہنچ سکے گا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں خاندان کا تصور بہت محدود ہو گیا ہے، بیوی بچوں کے سوا بمشکل والدین کو اس میں شامل کیا جاتا ہے، بھائی بہن کا تو ذکر ہی کیا ہے تعلیم کے ان شعبوں سے فارغ ہونے والے نوجوان اپنے آپ کو سکہ ڈھالنے کی مشین سمجھتے ہیں، قومی وملی مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا؛ اس لئے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی تعلیم ملت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا رہی ہے ؛ بلکہ جولوگ ایسے نوجوانوں پر بطور تعاون اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، وہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ملک کا جو سر مایہ ان پر خرچ کیا جارہا ہے، ملت کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ایک ایسا گروہ تیار ہورہا ہے جس کی اکثریت خود غرضی اور مادہ پرستی میں مبتلا ہو جاتی ہے، کاش کہ جو عظیمیں تعلیم کے ان شعبوں میں نوجوانوں کو امدادفراہم کرتی ہیں ، وہ ان کی اخلاقی اور فطری تربیت کی طرف بھی توجہ دیں۔ لیکن اس وقت ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ان شعبوں میں لایا جائے ، جو فکر سازی ، ملت کے مسائل کی ترجمانی، انصاف کے حصول اور ان کے نظم و نسق میں شمولیت کو آسان بنا سکیں، اس سلسلہ میں خصوصی طور پر بعض شعبوں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا، جیسے قانون کا شعبہ ہے، سپریم کورٹ میں اچھے مسلم وکلاء جن کا عدالت میں وزن محسوس کیا جائے نہ کے برابر ہیں، ہائی کورٹوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے؛ اس لئے عدالتوں میں مسلمان ججس کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، بعض لوگوں کا احساس ہے کہ ملک کا یہ سب سے معزز ترین ادارہ فرقہ پرستی کے زہر سے مسموم ہوتا جا رہا ہے اور بعض دفعہ انصاف کو شرم سار ہونا پڑتا ہے، اگر قانون کے شعبہ میں ہماری موثر نمائندگی نہیں رہے گی تو ہمارے لئے انصاف کی جنگ جیتنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جائے گا۔

اسی طرح موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ، بالخصوص انگریزی اور مقامی زبان کے میڈیا کی بڑی اہمیت ہے، اس کے بغیر پروپیگنڈہ کی جنگ میں عزت و آبرو کا بچانا مشکل ہے، ایسے انگریزی دانوں کی بھی ضرورت ہے، جن کو انگریزی کے معتبر ادیب اور مصنف کا درجہ حاصل ہو اور قومی سطح پر ان کو پذیرائی حاصل ہو، ڈاکٹر جسم کا علاج کر سکتا ہے، انجینئر بلڈنگیں اور مشینیں بنا سکتا ہے؛ لیکن فکر سازی کا کام اچھے جرنلسٹ اور باصلاحیت مصنف اور ماہر تاریخ داں کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا ہے، لیکن ان شعبوں سے مسلمان طلبہ کئے ہوئے ہیں اور اسی لئے مسلمانوں میں عصری علوم کے حامل ایسے ماہرین نہیں رہے، جو مسلمانوں کے نقطہ نظر کو دلیل، زبان و بیان کی قوت منطقیت و معقولیت اور خوش سلیقگی کے ساتھ پیش کر سکیں ، ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے تئیں ایسا کردار ادا کرتے ہیں کہ گویا وہ مسلمانوں کے بالمقابل اپوزیشن ہوں ، تاریخ ایسی مرتب کی جارہی ہے جس میں مسلمانوں سے متعلق نفرت کے جذبات ابھارے جارہے ہیں، زبان و بیان کے اعتبار سے معیاری اور مقبول کتابیں اس انداز کی آرہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں۔ خاص طور پر سول سروسیز کا ذکر کروں گا ، جس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت حقیر ہے اور یہ تعداد کی کمی اس لئے نہیں ہے کہ مسلمان کی زیادہ تعداد شریک ہوتی ہو اور نسبتا کم تعداد کامیاب ہوتی ہو؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امتحان میں شریک ہونے والے مسلمان امید واروں ہی کی تعداد کم ہوتی ہے اور شرکت کے اعتبار سے کامیابی کا تناسب عام طور پر وہی ہوتا ہے، جو اکثریت کا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ کم صلاحیت ہونے کا نہیں ہے بلکہ کم ہمتی، پست حوصلگی اور جدو جہد میں کمی کا ہے، نیز مزاج یہ بن گیا ہے کہ اعلیٰ ترین منزل پر پہنچنے کے بجائے اس مرحلہ پر اکتفا کر لیا جائے، جس سے کمائی ہونے لگے اور مرفہ الحالی حاصل ہو جائے؛ حالاں کہ جو لوگ اس مقام تک پہنچتے ہیں، وہ ملت کو انصاف دلانے میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں اور سیاسی نمائندوں سے بھی بڑھ کر وہ قوم وملت کے لئے اپنی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔

اس لئے ضرورت ہے کہ اب تعلیم کے ان شعبوں کی طرف توجہ دی جائے، نوجوانوں کی اس سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں اس لائق بنا یا جائے کہ ان کی صلاحیت کا فائدہ صرف ان کی ذات یا ان کے خاندان تک محدود نہ رہے؛ بلکہ پوری ملت کو ان کا نفع پہنچے، وہ صرف نوٹ چھاپنے والی مشین بن کر نہ رہ جائیں ؛ بلکہ وہ ملت کی سرفرازی و سرخروئی کا ذریعہ بنہیں۔

Copyright @ 2013 مکتب ايم ايف اکيڈمی.

Distributed By Blogger Themes | Designed by Templateism | TechTabloids