< 1 >
Read!
In the Name of ALLAH, Who has created man from a clot (a piece of thick coagulated blood).
< 2 >
Al-Islami
In the Name of ALLAH, Who has created man from a clot (a piece of thick coagulated blood).
< 3 >
Al-Islami
In the Name of ALLAH, Who has created man from a clot (a piece of thick coagulated blood).
< 4 >
Al-Islami
In the Name of ALLAH, Who has created man from a clot (a piece of thick coagulated blood).

رمضان المبارک اور اُس کے آداب

رمضان المبارک اور اُس کے آداب



 رمضان المبارک اور اُس کے آداب 

یہ جھوٹ،غیبت،گالم گلوچ جیسی تمام بُری باتوں کیخلاف ڈھال ہے،روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی میں خود ہی دیتا ہوں:

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

اے ایمان والو!روزے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تم پر بھی فرض کر دیئے گئے ہیں تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن مجید نازل کیا گیا،جو لوگوں کے لئے سرا سر ہدایت ہے اور اس میں لوگوں کی صحیح رہنمائی کی باتیں ہیں اور غلط اور صحیح کو الگ الگ کر دینے والی صاف اور واضح باتیں موجود ہیں سو تم میں سے جو کوئی اس مہینے میں موجود ہو وہ اس پورے مہینے کے روزے ضرور رکھے۔

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم کو ایک خطبہ دیا۔اس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:اے لوگو!تم پر ایک عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ افگن ہو رہا ہے،اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔


س مہینے کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں کھڑا ہونے (یعنی نماز تراویح پڑھنے) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے جس کا بہت بڑا ثواب رکھا ہے۔


جو شخص اس مہینے میں اللہ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کیلئے کوئی غیر فرض عبادت (اللہ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے) افطار کرائے تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کمی کی جائے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم!ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا،تو کیا غرباء اس عظیم ثواب سے محروم رہیں گے؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ:اللہ تعالیٰ یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی ہی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرا دے۔

اس شخص کو اللہ تعالیٰ میرے حوض (یعنی کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔تاآنکہ وہ جنت میں پہنچ جائے۔اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا،اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دے گا۔اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دے گا۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ رمضان کے تین عشرے ہوتے ہیں۔


اس کا پہلا عشرہ سرا سر رحمت کا ہے،درمیانہ عشرہ نزول بخشش کا ہے اور آخری عشرہ تو عذاب سے خلاصی کی دستاویز ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،انہوں نے فرمایا کہ حضور سید اولین و آخرین رسول برحق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے حالتِ ایمان میں اور کیفیتِ احتساب میں،اس کے لئے اس کے پہلے گناہ معاف کر دیے جائیں گے اور جو شخص رمضان میں عبادات میں مصروف رہے گا حالتِ ایمان میں اور کیفیتِ احتساب کے ساتھ اس کی پچھلی کوتاہیاں معاف کر دی جائیں گی اور جس شخص نے حالتِ ایمان اور کیفیتِ احتساب کے ساتھ شبِ قدر میں عبادات کیں اس کی گزری کوتاہیاں بخش دی جائیں گی۔


روزہ ایک ایسی عبادت ہے کہ جس کے بارے میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ میرے لئے ہے اور اس کا اجر بھی میں خود ہی دیتا ہوں۔یعنی یہ اللہ اور اس کے بندے کا براہ راست معاملہ ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی بجا آوری میں تمام دن کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے رُکا رہتا ہے اور اس کے ان آداب کی پوری پابندی کا خیال و احساس رکھتا ہے اور ان پابندیوں کے مطابق اپنے دن رات کو گزارنے کی کاوشیں کرتا ہے تو یقینا اللہ تعالیٰ اس کا اجر خود ہی عطا فرماتا ہے۔


ایک اور حدیث مبارک میں ارشاد فرمایا:”روزہ آدمی کے لئے ڈھال کا کام دیتا ہے۔بشرطیکہ وہ اسے پھاڑ نہ ڈالے“۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے کہ جب یہ ارشاد فرمایا تو عرض کیا گیا؟اسے کسی کے ساتھ پھاڑا جا سکتا ہے۔ارشاد فرمایا:جھوٹ یا غیبت کے ساتھ۔یعنی روزے کی حالت میں جھوٹ،غیبت،گالم گلوچ،لڑائی،جھگڑا اور دوسری اس طرح کی بُری چیزوں اور بُری باتوں سے سختی کے ساتھ ممانعت کی گئی ہے۔

حدیث مبارک میں ہے کہ:جس کسی نے روزہ کی حالت میں بُری بات کہنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔اگر کوئی روزہ دار روزہ رکھنے کے بعد میں فسق و فجور،لڑائی جھگڑا،گالم گلوچ،فحش گوئی یا دوسری اس طرح کی باتوں سے نہیں رُکتا تو یہ اس کا روزہ ہی نہیں ہے بلکہ یہ اس کا فاقہ بن جاتا ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے۔

ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ تو لغویات اور بُری باتوں سے بچنے کا نام ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس کے اعضاء حرام کاموں سے نہیں رکتے اس کو میری خاطر نہ کھانے اور نہ پینے کی کوئی ضرورت نہیں۔جس طرح زبان کو فحش گوئی،غیبت اور جھوٹ سے بچانا ضروری ہے اسی طرح انسان کے دوسرے اعضاء آنکھ،کان،ناک،ہاتھ،پاؤں کو بھی بُرے افعال سے بچانا ضروری ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ ایک حدیث مبارک کے الفاظ قدسی کچھ اس طرح ہیں کہ ”جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیدیوں کو چھوڑ دیتے اور ہر سائل کی مُراد پوری کرتے“رمضان میں جہاں بہت سی برکات و انعامات ہیں وہیں مسلمانوں کے دوسرے لوگوں کے ساتھ اچھے رویوں کی بھی تلقین فرمائی گئی ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسے عمل مبارک سے بھی اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے۔

گویا رمضان کا مہینہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس مہینہ میں باقی مہینوں کی نسبت بہت زیادہ جود و سخا اور کرم فرماتے۔

دین اسلام میں مسلمانوں کے لئے ہر موقع کے لئے آسانیاں رکھی گئی ہیں۔جیسے قرآن مجید میں ارشاد ہوا:ترجمہ:”اللہ تعالیٰ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے وہ تمہارے حق میں تنگی ہر گز نہیں چاہتا“۔روزے میں کوئی مسافر ہو یا مریض ہو تو اس کے لئے بھی رخصت کی اس طرح سے اجازت ہے کہ وہ اس حالت میں رمضان کے روزوں کی قضا بعد کے دنوں میں ادا کرے۔

اگر کوئی شخص عمر کے اس حصہ میں ہے یا مرض کی اس حالت میں ہے کہ اس سے سال کے باقی ایام میں کسی بھی وقت روزہ رکھنا ممکن نہیں تو اس کے لئے فدیہ کا حکم ہے۔

ایک اور حدیث مبارک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مہینے کو صبر اور غمخواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔دینی اصطلاحات میں صبر کے معنی اللہ کی رضا کے لئے اپنے نفس کی خواہشوں کو دبانا اور تلخیوں اور ناگواریوں کو برداشت کرنا ہے جس سے اس کے اندر ان غربا و مساکین کی ہمدردی کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے جو ناداری کی وجہ سے فاقوں پر مجبور ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تعلیمات قرآنی و سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پورے طریق سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تراویح کی فضیلت

تراویح کی فضیلت



نماز تراویح ایک ایسی عبادت ہے جو صرف ماہ رمضان المبارک ہی میں ادا کرنا مسنون ہے اور یہ زمانہ رسالت سے آج تک مسلمانوں میں متواتر رائج چلی آرہی ہے۔ نماز تراویح کی ترغیب خود نبی اکرم نے دی ہے۔ آپ نے فرمایا جس شخص نے رمضان میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے قیام کیا، اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے جائیں گے..
شرح صحیح مسلم میں امام نووی نے لکھا ہے کہ اس حدیث مبارکہ میں قیام رمضان سے مراد نماز تراویح ہے۔ دیگر مشارحین حدیث نے بھی اس سے مراد نماز تراویح ہی قرار دی ہے۔ صحیحین کی بعض روایات کے مطابق نبی اکرم نے نماز تراویح پڑھی لیکن مصلحنا جماعت کے ساتھ پورا مہینہ نہیں پڑھی۔ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم آدھی رات کے وقت مسجد تشریف لے گئے اور نماز ادا کی۔ لوگوں نے بھی آپ کی اقتداء میں نماز پڑھتی شروع کر دی۔ صبح لوگوں نے رات کی نماز کا آپس میں تذکرہ کیا۔ چنانچہ پہلی مرتبہ سے زیادہ لوگ (انگلی رات میں ) جمع ہو گئے۔ دوسری رات نبی اکرم تشریف لے گئے اور لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر لوگوں نے صبح اس واقعہ کا دیگر لوگوں سے ذکر کیا تو تیسری رات مسجد میں بہت زیادہ لوگ جمع ہو گئے۔ رسول اللہ تشریف لائے اور لوگوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی اور چوتھی رات کو اس قدرصحابہ جمع ہوئے کہ مسجد میں جگہ تنگ پڑ گئی اور رسول اللہ ان (لوگوں) کے پاس تشریف نہیں لائے ۔ چنانچہ لوگوں نے ” نماز نماز پکارنا شروع کر دیا مگر رسول اللہ تشریف نہیں لائے حتی کہ صبح کی نماز کے وقت تشریف لائے ۔ جب صبح کی نماز ہو گئی تو آپ لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے ۔ کلمہ شہادت پڑھا اور اس کے بعد فرمایا: ”گزشتہ رات تمہارا حال مجھ پرمخفی نہ تھا لیکن مجھے یہ خوف تھا کہ تم پر رات
کی نماز (تراویح) فرض کر دی جائے گی اور تم اس کی ادائیگی سے عاجز ہو جاؤ گے ۔ (مسلم) یہ بات واضح ہے کہ نبی اکرم کو نماز تراویح با جماعت پسند تھی ،مگر اس خوف سے کہ کہیں اللہ تعالی اسے فرض ہی قرار نہ دے دیں، آپ نے تسلسل کے ساتھ مسجد میں باجماعت یہ نماز ادا نہیں فرمائی۔ پھر اس طرح حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر بن خطاب کے ابتدائی دور میں الگ الگ بغیر جماعت نماز تراویح کا سلسلہ رہا تا آنکہ حضرت عمر فاروق نے ایک روز مسلمانوں کو حضرب ابی بن کعب کی امامت میں مسجد میں نماز تر او یکی با جماعت کیلئے جمع فرمایا ، 
پس اس روز سے رمضان کے پورے ماہ میں باجماعت نماز تراویح 20 رکعت ادا کرنے کا رواج ہوا ہے 

نماز تراویح میں ختم قرآن کا اہتمام بھی سب سے پہلے حضرت عمر فاروق نے ہی کیا کہ ماہ رمضان میں نماز تراویح میں ایک بار مکمل قرآن کریم تلاوت کیا جائے ۔ چنانچہ آپ کی قائم کردہ اس سنت پر دنیا بھر کے مسلمان آج بھی عمل پیرا ہیں۔ نماز تراویح میں جس تیز رفتاری سے قرآن کریم پڑھا جاتا ہے وہ نماز تراویح یعنی قیام رمضان کی اصل روح کے سراسر منافی ہے۔ نماز تراویح کا قیام رمضان کا مقصد تو یہ تھا کہ عام مہینوں کی نسبت اس ماہ میں زیادہ دیر تک راتوں کو عبادت کی جائے اور قرآن کریم زیادہ اہتمام کے ساتھ کثرت سے تلاوت و ساعت کیا جائے ۔ لیکن اکثر لوگ ایسے حافظ یا امام کے پیچھے نماز تراویح پڑھنا پسند کرتے ہیں جو انہیں جلد از جلد تر اویح پڑھا کر فارغ کر دے۔
نوجوان طبقہ خاص طور سے اس طرف مائل دکھائی دیتا ہے اور ایسی بہت سی مساجد جہاں مناسب رفتار سے ترتیل کے ساتھ الفاظ کی صحیح ادائیگی کا لحاظ کرتے ہوئے نماز تراویح میں تلاوت ہوتی ہو، مقتدیوں کی زیادہ تعداد دکھائی نہیں دیتی لیکن اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ اب سرے سے ایسے لوگ ہی نہیں جو سکون و اطمینان سے تراویح میں تلاوت کلام حکیم حروف کی صحیح ادائیگی کے ساتھ سنتا نہ چاہتے ہوں، بلاشبہ ایسے نیک لوگ زیادہ ہیں، نماز کے تمام ارکان کو ٹھہر ٹھہر کر اور سکون سے ادا کر نا تعدیل ارکان کہلاتا ہے ۔ فتاوی عالمگیری اور فقہ وفتاوی کی دیگر کتابوں میں لکھا ہے کہ تعدیل ارکان اعضاء کے ایسے سکون کو کہتے ہیں کہ اعضاء کے سب جوڑ کم از کم ایک بار تسبیح پڑھنے کی مقدار ٹھہر جائیں۔ ایسی نماز سے کیا حاصل ، جس سے روح نماز ہی غائب ہو اور پورا زور کسی نہ کسی طرح 20 رکعت کی تعداد پوری کرنے اور ان میں جلد از جلد سوا یا ڈیڑھ پارہ ختم کرنے پر صرف ہو رہا ہو۔


مکتب ایم ایف

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا 

ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے

مولانا مجیب الرحمن انقلابی:
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔
قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں…
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں (از صحیح بخاری مناقب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
(۱)خواب میں حضور کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔
(۲)جب میں سات برس کی تھی تو آپ نے مجھ سے نکاح کیا،
(۳)نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔
(۴)میرے سوا آپ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی،
(۵)حضور جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی،
(۶)میں آپ کی محبوب ترین بیوی تھی،
(۷)میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں،
(۸) میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے،
(۹) آپ نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی (مستدرک حاکم)
آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے دریافت کیا کہ… آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو (صحیح بخاری)۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام الموٴمنین اور کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپ نے اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر حضور کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی (ابوداوٴد کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام ام رومان تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارہویں پشت میں جا کر حضور سے مل جاتا ہے۔

حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی، چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔
(بخاری حصہ اول)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ”کاشانہ نبوت“ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپ کو کم و پیش دس سال حضور کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن (حضور) سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضورسے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ”نورخانہ“ میں آپ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سات سال کی عمر میں حضور سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اتنی کمسنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضور کے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں۔بقول حضرت سید سلمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ، ”کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر آٹھ برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں… وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مسکن تھا۔
آپ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کو خدا نے اولاد سے محروم کیا تھا، تو آپ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کو لیکر پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتیں تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضور کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
نبی کریم نے عورتوں کے لئے حج ہی کو جہاد ارشاد فرمایا ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں (بخاری شریف)۔ حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضور اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔
آپ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت اور ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ صرف ایک قسم کے کفارہ میں آپ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے (سیرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)۔ حضرت غزوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ چھاڑ دیا۔
آپ بے حد رحم دل تھیں لوگوں کی معمولی تکالیف کا اتنا گہرا اثر لیتیں کہ روتے روتے آنچل تر ہو جاتا۔ غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر آپ پر جو تہمت لگی اس کے بعدام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں… اسی طرح غزوہ ذات الریقح کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا…
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ 58ھ رمضان المبارک میں آپ رحمت دو عالم کی حر م اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں۔ سیدنا حضرت ابوھریرہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا… رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔



حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ

 

حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ

حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ

اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ : ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” تو وہ کہنے لگے۔”کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔


(البقرہ )
ترجمہ:
اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ : ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” تو وہ کہنے لگے۔”کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔جبکہ ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس بھی کر رہے ہیں۔”اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ ”جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
” (اس کے بعد) اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے اسماء (نام یا صفات و خواص) سکھا دیئے۔ پھر ان اشیاء کو فرشتوں کے روبرو پیش کر کے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو”۔ فرشتے کہنے لگے نقص سے پاک تو تیری ہی ذات ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا ہے اور ہر چیز کو جاننے والا اور اس کی حکمت سمجھنے والا تو تو ہی ہے۔

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو سجدہ کرو۔ تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے اسے سجدہ کیا ابلیس نے اس حکم الہی کو تسلیم نہ کیا اور گھمنڈ میں آ گیا اور کافروں میں شامل ہوگیا۔ پھر ہم نے آدم سے کہا کہ: تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں آباد ہوجاوٴ اور جہاں سے چاہو (اسکے پھل) جی بھر کے کھاوٴ۔ البتہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔
آخر کار شیطان نے اسی درخت کی ترغیب دیکر آدم و حوا دونوں کو ورغلا دیا۔ اور جس حالت میں وہ تھے انہیں وہاں سے نکلوا کر ہی دم لیا۔ تب ہم نے کہا: تم سب یہاں سے اتر (نکل) جاوٴ۔ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ اور اب تمہیں ایک معین وقت (موت یا قیامت ) تک زمین میں رہنا اور گزر بسر کرنا ہے۔ پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔
بلاشبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ہم نے کہا : تم سب کے سب یہاں سے نکل جاوٴ۔ پھر جو میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے اور جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان بھی ہیں اور پیغمبر بھی۔ جب اللہ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس سے قبل چند اہم اقدامات کئے۔
ایک اقدام تو یہ تھا کہ تمام انسانوں کی ارواح کو شعور دے کر انہیں دنیا کی زندگی کی آزمائش کے بارے میں بتایا کہ انہیں اچھے اور برے کی تمیز کی آزمائش میں ڈالا جارہا ہے اور جو کامیاب ہوگا اس کا بدلہ جنت اور ناکاموں کا بدلہ جہنم ہے۔سورہ احزاب کی ایک آیت کے مطابق انسان نے اس اسکیم کو سمجھ کر اسے قبول کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اس کے بعد اللہ نے انسان کی تمام ارواح کو اپنے بارے میں باخبر کیا اور ان سے نہ صرف اپنے رب ہونے کا اقرا کروایا بلکہ اپنے تنہا الٰہ ہونے کا شعور بھی اس کی فطرت میں ودیعت کردیا۔
اس سے اگلا مرحلہ وہ ہے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ہے۔ یعنی اللہ نے اپنا یہ منصوبہ فرشتوں اور جنات کے سامنے رکھا کیونکہ یہ دونوں ذی شعور اور صاحب ارادہ مخلوقات تھیں اور ان کا انٹرایکشن انسان سے ہونا تھا۔ جب اللہ نے فرشتوں اور جنات کے سامنے یہ منصوبہ رکھا کہ ایک ذی شعور صاحب اختیار ہستی کو دنیا میں بھیجا جانے والا ہے تو فرشتوں کو صاف نظر آگیا کہ انسان اپنے اختیار کا غلط استعمال کرے گا جس کے نتیجے میں خون خرابا بھی ہوگا۔
چنانچہ انہوں نے اپنا اشکال سامنے رکھ دیا۔لیکن اللہ نے ان کا اشکال اس طرح دور کیا کہ حضرت آدم علیہ السلا م کو ان ہستیوں کے نام یاد کرادئیے جنہوں نے آگے جاکر پیغمبر، ولی، صدیق، شہداء اور صالحین بننا تھا۔ پھر حضرت آدم کو حکم دیا کہ تم فرشتوں کو ان پاکیزہ و مقرب ہستیوں کے نام بتادو۔ چنانچہ جب حضرت آدم نے یہ نام پیش کئے تو فرشتوں نے اپنے اشکال کو واپس لے لیا۔
اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اختیار کے آپشن کو غلط استعمال کرنے والے بدبخت ہونگے تو دوسری جانب اسی دنیا میں خدا کے آگے جھک جانے والے اور اپنی زندگی خدا کی مرضی کے مطابق گذارنے والے نیک لوگ بھی تو ہونگے۔
اس کے بعد اگلے مرحلے تمام جنات و فرشتوں کو انسان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ دونوں مخلوقات انسان کی آزادی و اختیار میں کوئی مداخلت نہیں کریں گی۔
جنات میں سے شیطان نے جھکنے سے انکار کردیا جو اس بات کا علان تھا کہ وہ انسان کو آزادی و آسانی کے ساتھ خدا کی رضا حاصل نہیں کرنے دینا چاہتا۔ چنانچہ اللہ نے اسے راندہ درگا ہ کردیا۔
پھر اللہ نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو دنیا میں بھیجے جانے سے قبل دنیا کی زندگی میں پیش آنے والی آزمائش سے آگاہ کرنے کے لئے ایک جنت میں بھیجا۔ اس جنت میں انہیں تمام سہولیات دی گئیں بس ایک درخت کا پھل کھانے سے روک دیا۔
شیطان نے اپنا مشن شروع کردیا اور انہیں ورغلایا۔ ابتدا میں تو دونوں انکار کرتے رہے لیکن ایک وقت آیا کہ دونوں شیطان کی باتوں میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے نتیجے میں وہ جنت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اللہ کی جانب رجوع کرلیا۔ اس پر اللہ نے انہیں معاف بھی کردیا۔ اب اس ابتدائی جنت کی تربیت مکمل ہوچکی تھی اس لئے اللہ نے دونوں کو دنیا میں بھیج کر اس امتحان کی ابتدا کردی جس میں ہم سب آزمائے جارہے ہیں۔
شیطان ایک عالم و فاضل اور عبادت گذار ہستی ہونے کو باوجود بہک گیا اور محض حسد کی بنا پر سجدے سے انکار کردیا۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ حسد اتنی بڑی بری بیماری ہے.شیطان اور حضرت آدم علیہ السلام دونوں سے غلطی ہوئی۔ لیکن دونوں کا رد عمل مختلف تھا۔شیطان نے سجدہ سے انکار کیا اور جب اللہ نے اسے اس کی غلطی کی احساس دلایا تو اس نے غلطی تسلیم کرنے اور معافی مانگنے کی بجائے خود اللہ ہی کو قصور وار ٹہرادیا۔
دوسری جانب حضرت آدم و حوا کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اکڑنے کی بجائے عجزو انکساری کا پیکر بن گئے۔ چنانچہ اللہ نے شیطان کو مردود بنادیا اور حضرت آدم و حوا کو مقبول۔آج بھی انسان سے یہی رویہ مطلوب ہے کہ جب بھی غلطی ہوجائے تو وہ اکڑنے ، گناہ پر اصرار کرنے اور اس کے لئے تاویلیں تلاش کرنے کی بجائے جھک جائے، سرنڈر کردے اور خدا کی مغفرت کا طلبگار بن جائے۔

عشرہ مبشرہ

 

عشرہ مبشرہ


ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم نے دس صحابہ کرام کو اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت سنادی تھی۔ انہیں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔

سعید بن زید

ابوبکر صدیق

سعد بن ابی وقاص

عمر فاروق

عبد الرحمن بن عوف ابو عبیدہ بن جراح .

عشرہ مبشرة

على المرضى.

زبیر بن عوام

حضرت طلحہ عام

خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات

 

خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات


خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات کے نام مندرجہ ذیل یہ ہیں

1۔ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خولید

2 ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ

3 ام المومنین حضرت حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر صدیق -

4 ام المومنین حضرت حفصہ بن عمر بن خطاب 

5- ام المومنین حضرت زینب بنت جحش

 ۔ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ

7- ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان

8۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ

9۔ ام المومنین حضرت جویریہ

10 - ام المومنین حضرت میمونہ

11 - ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی

تعلیم کا حق

 

تعلیم کا حق


تعلیم کا حق انسان کی ترقی علم سے وابستہ ہے۔ جوفر دیا گر وہ علم سے بے بہرہ ہو وہ زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتا ہے ۔ نہ تو اس کی فکری پرواز بلند ہو سکتی ہے۔ اور نہ اس کی مادی ترقی ہی کا بہت زیادہ امکان ہے۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل دور ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی اہمیت محسوس نہیں کی گئی ۔ علم کامیدان صرف مرد کا سمجھا جاتا ہے۔ مردوں میں بھی خاص طبقات علم حاصل کرتے تھے عورت علم کی بارگاہ سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔

اسلام نے علم کے دروازے عورت اور مرد دونوں کیلیے کیلے رکھے ۔ اس راہ کی پابندیاں ختم کیں ۔ اور ہر طرح کی آسانیاں فراہم کیں۔ اس نے خاص لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دلائی ، اس کی ترغیب

دی اور اس کا ثواب بتایا۔ حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ۔ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم و تربیت دی ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی ) حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ اسلام کا خطاب عورت اور مرد دونوں سے ہے ۔ اس نے ان میں سے ہر ایک کو عبادات، اخلاق اور احکام شریعت کا پابند بنایا ہے۔ علم کے بغیر ان کی پابندی نہیں ہو سکتی ۔ عورت کیلیے مرد سے تعلقات کا مسئلہ بڑا اہم ہے ۔ یہ تعلقات انتہائی پیچیدہ اور بڑی نزاکت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں عورت کے حقوق بھی ہیں اور ذمہ داریاں بھی جب تک اسے ان کا علم نہ ہو وہ ٹھیک ٹھیک نہ تو اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتی ہے اور نہ اپنے

حقوق کی حفاظت اس سے ہو سکتی ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ہی کے لیے کم از کم دین کی بنیادی باتوں کا جاننا ضروری ہے۔ عورت اگر ان سے نا واقف ہو تو شوہر اسے خود بتائے گا یا کوئی ایسا انتظام کرے گا کہ وہ ان کا علم حاصل کر سکے ۔ اگر شوہر اس کا انتظام نہ کرے تو عورت خود سے انہیں سیکھنے کی کوشش کرے گی ۔ یہ اس کا ایک قانونی حق ہے۔ اس کے لیے وہ گھر سے باہر بھی اخلاقی حدود کی پابندی کیساتھ ) جاسکتی ہے۔ شوہر اس پر

پابندی نہیں لگا سکتا۔

ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دور اول میں علم جس طرح مردوں میں پھیلا عورتوں میں بھی نام ہوا ۔ صحابہ کے درمیان قرآن و حدیث کا علم رکھنے والی خواتین کافی تعداد میں ہمیں ملتی ہیں ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتوی دینا بڑا نازک اور مشکل کام ہے۔ اس میدان میں بھی عورتیں موجود تھیں ۔ ان میں حضرت عائشہ حضرت ام سلمہ ، أم صفیہ حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابو بکر، فاطمہ بنت قیس ، خولامینت تو یت وغیرہ بہت نمایاں ہیں ۔

Copyright @ 2013 مکتب ايم ايف اکيڈمی.

Distributed By Blogger Themes | Designed by Templateism | TechTabloids