حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا

 

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا


حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا 

ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے

مولانا مجیب الرحمن انقلابی:
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاوہ خوش قسمت ترین عورت ہیں کہ جن کو حضور کی زوجہ محترمہ اور ”ام الموٴمنین“ ہونے کا شرف اور ازواج مطہرات میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔
قرآن و حدیث اور تاریخ کے اوراق آپ کے فضائل و مناقب سے بھرے پڑے ہیں اور روشن ہیں…
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے شادی سے قبل حضور نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ ریشم کے کپڑے میں کوئی چیز لپیٹ کر آپ کے سامنے پیش کر رہا ہے… پوچھا کیا ہے؟ جواب دیا کہ آپ کی بیوی ہے، آپ نے کھول کہ دیکھا تو حضرت عائشہ ہیں (از صحیح بخاری مناقب عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا) ام المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا خود فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے نو باتیں ایسی عطا فرمائی ہیں جو دنیا میں میرے سوا کسی کو عطا نہیں ہوئیں۔
(۱)خواب میں حضور کے سامنے فرشتے نے میری تصویر پیش کی۔
(۲)جب میں سات برس کی تھی تو آپ نے مجھ سے نکاح کیا،
(۳)نو برس کی عمر میں میری رخصتی ہوئی۔
(۴)میرے سوا آپ کی خدمت میں کوئی اور کنواری بیوی نہ تھی،
(۵)حضور جب میرے پاس ہوتے تب بھی وحی آتی تھی،
(۶)میں آپ کی محبوب ترین بیوی تھی،
(۷)میری شان میں قرآنی آیات نازل ہوئیں،
(۸) میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھا ہے،
(۹) آپ نے میری ہی گود میں سر مبارک رکھے ہوئے وفات پائی (مستدرک حاکم)
آپ کو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بہت محبت تھی، ایک مرتبہ حضرت عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور سے دریافت کیا کہ… آپ دنیا میں سب سے زیادہ کس کو محبوب رکھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو، عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! مردوں کی نسبت سوال ہے! فرمایا کہ عائشہ کے والد (ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کو (صحیح بخاری)۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا نام عائشہ، لقب صدیقہ اور حمیرا، خطاب ام الموٴمنین اور کنیت ام عبد اللہ ہے۔ چونکہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا صاحبِ اولاد نہ تھیں اس لئے آپ نے اپنی بہن حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے صاحبزادے اور اپنے بھانجے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام پر حضور کے ارشاد کے مطابق اپنی کنیت ام عبد اللہ اختیار فرمائی (ابوداوٴد کتاب الادب) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے والد کا نام عبد اللہ، ابوبکر کنیت اور صدیق لقب تھا، ماں کا نام ام رومان تھا، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سلسلہ نسب باپ کی طرف سے ساتویں پشت اور ماں کی طرف سے گیارویں یا بارہویں پشت میں جا کر حضور سے مل جاتا ہے۔

حضرت صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی پیدائش سے چار سال قبل ہی آپ کے والد ماجد سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دولت اسلام سے مالا مال ہو چکے تھے اور آپ کا گھر نورِ اسلام سے منور ہو چکا تھا، اس لیے آپ نے آنکھ کھولتے ہی اسلام کی روشنی دیکھی۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ انہوں نے کبھی کفروشرک کی آواز تک نہیں سنی، چنانچہ وہ خود ہی ارشاد فرماتی ہیں کہ جب سے میں نے اپنے والد کو پہچانا ان کو مسلمان پایا۔
(بخاری حصہ اول)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ”کاشانہ نبوت“ میں حرم نبوی کی حیثیت سے داخل ہونے کے بعد قرآن مجید کا ایک بڑا حصہ نازل ہوا، آپ کو کم و پیش دس سال حضور کے ساتھ رہنے کا شرف حاصل ہوا، خود صاحبِ قرآن (حضور) سے قرآن سنتیں، جس آیت کا مطلب سمجھ میں نہ آتا حضورسے اس کا مفہوم سمجھ لیتیں، اسی ”نورخانہ“ میں آپ نے کلامِ الٰہی کی معرفت، ارشاداتِ رسالت کا علم، رموز و اسرار دین کی عظیم الشان واقفیت حاصل کی،
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو علم دینیہ کے علاوہ تاریخ، ادب اور طب کے علوم میں بھی کافی مہارت تھی، غرضیکہ اللہ رب العزت نے آپ کی ذاتِ اقدس میں علم انساب، شعروشاعری، علوم دینیہ، ادب و تاریخ اور طب جیسے علوم جمع فرما دیئے تھے۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا سات سال کی عمر میں حضور سے نکاح ہوا، اور نو برس کی عمر میں رخصتی ہوئی۔ اتنی کمسنی میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا حضور کے گھر آنا گہری حکمتوں اور اعلیٰ دینی فوائد سے خالی نہیں۔بقول حضرت سید سلمان ندوی رحمتہ اللہ علیہ، ”کم سنی کی اس شادی کا ایک منشا نبوت اور خلافت کے درمیان تعلقات کی مضبوطی بھی تھی۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بچپن ہی سے نہایت ہی ذہین و فطین اور عمدہ ذکاوت کی مالک تھیں۔ ہجرت کے وقت ان کی عمر آٹھ برس لیکن اس کم سنی اور کم عمری میں ہوش مندی اور قوت حافظہ کا یہ حال تھا کہ ہجرتِ نبوی کے تمام واقعات بلکہ تمام جزوی باتیں ان کو یاد تھیں۔
ام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جس گھر میں دلہن بن کر آئی تھیں… وہ کوئی عالیشان اور بلند و بالا عمارت پر مشتمل نہ تھا، مسجد نبوی کے چاروں طرف چھوٹے چھوٹے متعدد حجرے تھے ان ہی میں ایک حجرہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مسکن تھا۔
آپ زہد و قناعت کی وجہ سے صرف ایک جوڑا پاس رکھتی تھیں اسی کو دھو دھو کر پہنتی تھیں، آپ کو خدا نے اولاد سے محروم کیا تھا، تو آپ عام مسلمانوں کے بچوں کو اور زیادہ تر یتیموں کو لیکر پرورش کیا کرتی تھیں، ان کی تعلیم و تربیت کرتی تھیں اور ان کی شادی بیاہ کے فرائض انجام دیتی تھیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا عبادت الٰہی میں اکثر مصروف رہا کرتیں تھیں، دیگر نمازوں کے ساتھ ساتھ رات کو اٹھ کر نماز تہجد ادا فرمایا کرتی تھیں اور حضور کی وفات کے بعد بھی اس نماز کی پابندی میں کوئی فرق نہیں آیا۔
نبی کریم نے عورتوں کے لئے حج ہی کو جہاد ارشاد فرمایا ہے، اس لیے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حج کی بہت زیادہ پابندی فرمایا کرتی تھیں اور تقریباً ہر سال حج کیلئے تشریف لے جاتیں (بخاری شریف)۔ حج کے بعد عمرہ بھی ادا کرتیں، آخر رمضان میں جب حضور اعتکاف فرماتے تو حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی اتنے ہی دن صحن میں خیمہ نصب کروا کر اعتکاف میں گزارتیں۔
آپ کی ذات اقدس میں قناعت کی صفت اور ایثار کا جذبہ بھی بہت زیادہ پایا جاتا تھا۔ صرف ایک قسم کے کفارہ میں آپ نے ایک بار چالیس غلام آزاد کئے تھے، آپ کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے (سیرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)۔ حضرت غزوہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ان کے سامنے پوری ستر ہزار کی رقم خدا کی راہ میں دے دی اور دوپٹہ کا گوشہ چھاڑ دیا۔
آپ بے حد رحم دل تھیں لوگوں کی معمولی تکالیف کا اتنا گہرا اثر لیتیں کہ روتے روتے آنچل تر ہو جاتا۔ غزوہ بنی مصطلق کے موقع پر آپ پر جو تہمت لگی اس کے بعدام الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی صفائی میں سترہ قرآنی آیات نازل ہوئیں… اسی طرح غزوہ ذات الریقح کے موقع پر بھی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے تیمم کا قرآنی حکم نازل ہوا…
ام الموٴمنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا امت مسلمہ پر بہت بڑا احسان ہے کہ ان کے مبارک واسطہ سے امت کو دین کا بڑا حصہ نصیب ہوا۔
حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کبھی ایسی مشکل پیش نہ آئی جس کے بارے میں ہم نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے پوچھا اور ان سے اس کے بارے میں کوئی معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔ 58ھ رمضان المبارک میں آپ رحمت دو عالم کی حر م اور تمام مسلمانوں کی ماں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے فرزندوں پر بے شمار احسانات کی بارش فرما کر ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گئیں۔ سیدنا حضرت ابوھریرہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کو وصیت کے مطابق جنت البقیع میں دفن کیا گیا… رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔



حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ

 

حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ

حضرت آدم علیہ السلام کا واقعہ

اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ : ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” تو وہ کہنے لگے۔”کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔


(البقرہ )
ترجمہ:
اور (اے پیغمبر! اس وقت کا تصور کرو) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا کہ : ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔” تو وہ کہنے لگے۔”کیا تو اس میں ایسے شخص کو خلیفہ بنائے گا جو اس میں فساد مچائے گا اور (ایک دوسرے کے) خون بہائے گا۔جبکہ ہم تیری حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح وتقدیس بھی کر رہے ہیں۔”اللہ تعالیٰ نے انہیں جواب دیا کہ ”جو کچھ میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
” (اس کے بعد) اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے اسماء (نام یا صفات و خواص) سکھا دیئے۔ پھر ان اشیاء کو فرشتوں کے روبرو پیش کر کے ان سے کہا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو”۔ فرشتے کہنے لگے نقص سے پاک تو تیری ہی ذات ہے۔ ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں جتنا تو نے ہمیں سکھایا ہے اور ہر چیز کو جاننے والا اور اس کی حکمت سمجھنے والا تو تو ہی ہے۔

اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ : آدم کو سجدہ کرو۔ تو سوائے ابلیس کے سب فرشتوں نے اسے سجدہ کیا ابلیس نے اس حکم الہی کو تسلیم نہ کیا اور گھمنڈ میں آ گیا اور کافروں میں شامل ہوگیا۔ پھر ہم نے آدم سے کہا کہ: تم اور تمہاری بیوی دونوں جنت میں آباد ہوجاوٴ اور جہاں سے چاہو (اسکے پھل) جی بھر کے کھاوٴ۔ البتہ اس درخت کے پاس نہ پھٹکنا ورنہ تم دونوں ظالموں میں شمار ہوگے۔
آخر کار شیطان نے اسی درخت کی ترغیب دیکر آدم و حوا دونوں کو ورغلا دیا۔ اور جس حالت میں وہ تھے انہیں وہاں سے نکلوا کر ہی دم لیا۔ تب ہم نے کہا: تم سب یہاں سے اتر (نکل) جاوٴ۔ کیونکہ تم ایک دوسرے کے دشمن ہو۔ اور اب تمہیں ایک معین وقت (موت یا قیامت ) تک زمین میں رہنا اور گزر بسر کرنا ہے۔ پھر آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی۔
بلاشبہ وہ بندوں کی توبہ قبول کرنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔ ہم نے کہا : تم سب کے سب یہاں سے نکل جاوٴ۔ پھر جو میری طرف سے تمہارے پاس ہدایت آئے اور جس نے میری ہدایت کی پیروی کی تو ایسے لوگوں کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
حضرت آدم علیہ السلام دنیا کے پہلے انسان بھی ہیں اور پیغمبر بھی۔ جب اللہ نے انسان کو دنیا میں بھیجنے کا ارادہ کیا تو اس سے قبل چند اہم اقدامات کئے۔
ایک اقدام تو یہ تھا کہ تمام انسانوں کی ارواح کو شعور دے کر انہیں دنیا کی زندگی کی آزمائش کے بارے میں بتایا کہ انہیں اچھے اور برے کی تمیز کی آزمائش میں ڈالا جارہا ہے اور جو کامیاب ہوگا اس کا بدلہ جنت اور ناکاموں کا بدلہ جہنم ہے۔سورہ احزاب کی ایک آیت کے مطابق انسان نے اس اسکیم کو سمجھ کر اسے قبول کرنے کا ارادہ کرلیا۔ اس کے بعد اللہ نے انسان کی تمام ارواح کو اپنے بارے میں باخبر کیا اور ان سے نہ صرف اپنے رب ہونے کا اقرا کروایا بلکہ اپنے تنہا الٰہ ہونے کا شعور بھی اس کی فطرت میں ودیعت کردیا۔
اس سے اگلا مرحلہ وہ ہے جس کا اوپر کی آیات میں ذکر ہے۔ یعنی اللہ نے اپنا یہ منصوبہ فرشتوں اور جنات کے سامنے رکھا کیونکہ یہ دونوں ذی شعور اور صاحب ارادہ مخلوقات تھیں اور ان کا انٹرایکشن انسان سے ہونا تھا۔ جب اللہ نے فرشتوں اور جنات کے سامنے یہ منصوبہ رکھا کہ ایک ذی شعور صاحب اختیار ہستی کو دنیا میں بھیجا جانے والا ہے تو فرشتوں کو صاف نظر آگیا کہ انسان اپنے اختیار کا غلط استعمال کرے گا جس کے نتیجے میں خون خرابا بھی ہوگا۔
چنانچہ انہوں نے اپنا اشکال سامنے رکھ دیا۔لیکن اللہ نے ان کا اشکال اس طرح دور کیا کہ حضرت آدم علیہ السلا م کو ان ہستیوں کے نام یاد کرادئیے جنہوں نے آگے جاکر پیغمبر، ولی، صدیق، شہداء اور صالحین بننا تھا۔ پھر حضرت آدم کو حکم دیا کہ تم فرشتوں کو ان پاکیزہ و مقرب ہستیوں کے نام بتادو۔ چنانچہ جب حضرت آدم نے یہ نام پیش کئے تو فرشتوں نے اپنے اشکال کو واپس لے لیا۔
اس کا مقصد یہ بتانا تھا کہ اختیار کے آپشن کو غلط استعمال کرنے والے بدبخت ہونگے تو دوسری جانب اسی دنیا میں خدا کے آگے جھک جانے والے اور اپنی زندگی خدا کی مرضی کے مطابق گذارنے والے نیک لوگ بھی تو ہونگے۔
اس کے بعد اگلے مرحلے تمام جنات و فرشتوں کو انسان کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیا اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ دونوں مخلوقات انسان کی آزادی و اختیار میں کوئی مداخلت نہیں کریں گی۔
جنات میں سے شیطان نے جھکنے سے انکار کردیا جو اس بات کا علان تھا کہ وہ انسان کو آزادی و آسانی کے ساتھ خدا کی رضا حاصل نہیں کرنے دینا چاہتا۔ چنانچہ اللہ نے اسے راندہ درگا ہ کردیا۔
پھر اللہ نے حضرت آدم اور حضرت حوا کو دنیا میں بھیجے جانے سے قبل دنیا کی زندگی میں پیش آنے والی آزمائش سے آگاہ کرنے کے لئے ایک جنت میں بھیجا۔ اس جنت میں انہیں تمام سہولیات دی گئیں بس ایک درخت کا پھل کھانے سے روک دیا۔
شیطان نے اپنا مشن شروع کردیا اور انہیں ورغلایا۔ ابتدا میں تو دونوں انکار کرتے رہے لیکن ایک وقت آیا کہ دونوں شیطان کی باتوں میں آگئے اور اس درخت کا پھل کھالیا۔ اس کے نتیجے میں وہ جنت کی سہولیات سے محروم ہوگئے۔ جب انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے اللہ کی جانب رجوع کرلیا۔ اس پر اللہ نے انہیں معاف بھی کردیا۔ اب اس ابتدائی جنت کی تربیت مکمل ہوچکی تھی اس لئے اللہ نے دونوں کو دنیا میں بھیج کر اس امتحان کی ابتدا کردی جس میں ہم سب آزمائے جارہے ہیں۔
شیطان ایک عالم و فاضل اور عبادت گذار ہستی ہونے کو باوجود بہک گیا اور محض حسد کی بنا پر سجدے سے انکار کردیا۔ اس سے یہ ثابت ہو ا کہ حسد اتنی بڑی بری بیماری ہے.شیطان اور حضرت آدم علیہ السلام دونوں سے غلطی ہوئی۔ لیکن دونوں کا رد عمل مختلف تھا۔شیطان نے سجدہ سے انکار کیا اور جب اللہ نے اسے اس کی غلطی کی احساس دلایا تو اس نے غلطی تسلیم کرنے اور معافی مانگنے کی بجائے خود اللہ ہی کو قصور وار ٹہرادیا۔
دوسری جانب حضرت آدم و حوا کو جب اپنی غلطی کا احساس ہوا تو وہ اکڑنے کی بجائے عجزو انکساری کا پیکر بن گئے۔ چنانچہ اللہ نے شیطان کو مردود بنادیا اور حضرت آدم و حوا کو مقبول۔آج بھی انسان سے یہی رویہ مطلوب ہے کہ جب بھی غلطی ہوجائے تو وہ اکڑنے ، گناہ پر اصرار کرنے اور اس کے لئے تاویلیں تلاش کرنے کی بجائے جھک جائے، سرنڈر کردے اور خدا کی مغفرت کا طلبگار بن جائے۔

عشرہ مبشرہ

 

عشرہ مبشرہ


ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلى الله عليه وسلم نے دس صحابہ کرام کو اس دنیا میں ہی جنت کی بشارت سنادی تھی۔ انہیں عشرہ مبشرہ کہتے ہیں۔ ان کے نام یہ ہیں۔

سعید بن زید

ابوبکر صدیق

سعد بن ابی وقاص

عمر فاروق

عبد الرحمن بن عوف ابو عبیدہ بن جراح .

عشرہ مبشرة

على المرضى.

زبیر بن عوام

حضرت طلحہ عام

خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات

 

خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات


خاتم النبین حضرت محمد مصطفی صلى الله عليه وسلم کی ازواج مطہرات کے نام مندرجہ ذیل یہ ہیں

1۔ ام المومنین حضرت خدیجہ بنت خولید

2 ام المومنین حضرت زینب بنت خزیمہ

3 ام المومنین حضرت حضرت عائشہ صدیقہ بنت ابی بکر صدیق -

4 ام المومنین حضرت حفصہ بن عمر بن خطاب 

5- ام المومنین حضرت زینب بنت جحش

 ۔ ام المومنین حضرت سودہ بنت زمعہ

7- ام المومنین حضرت ام حبیبہ بنت ابی سفیان

8۔ ام المومنین حضرت ام سلمہ

9۔ ام المومنین حضرت جویریہ

10 - ام المومنین حضرت میمونہ

11 - ام المومنین حضرت صفیہ بنت حیی

تعلیم کا حق

 

تعلیم کا حق


تعلیم کا حق انسان کی ترقی علم سے وابستہ ہے۔ جوفر دیا گر وہ علم سے بے بہرہ ہو وہ زندگی کی تگ و دو میں پیچھے رہ جاتا ہے ۔ نہ تو اس کی فکری پرواز بلند ہو سکتی ہے۔ اور نہ اس کی مادی ترقی ہی کا بہت زیادہ امکان ہے۔ لیکن اس کے باوجود تاریخ کا ایک طویل دور ایسا گزرا ہے جس میں عورت کے لیے علم کی اہمیت محسوس نہیں کی گئی ۔ علم کامیدان صرف مرد کا سمجھا جاتا ہے۔ مردوں میں بھی خاص طبقات علم حاصل کرتے تھے عورت علم کی بارگاہ سے بہت دور جہالت کی زندگی بسر کرتی تھی۔

اسلام نے علم کے دروازے عورت اور مرد دونوں کیلیے کیلے رکھے ۔ اس راہ کی پابندیاں ختم کیں ۔ اور ہر طرح کی آسانیاں فراہم کیں۔ اس نے خاص لڑکیوں کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ دلائی ، اس کی ترغیب

دی اور اس کا ثواب بتایا۔ حضرت ابوسعید خدری کی روایت ہے کہ رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا ۔ جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو تعلیم و تربیت دی ان کی شادی کی اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی ) حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔ اسلام کا خطاب عورت اور مرد دونوں سے ہے ۔ اس نے ان میں سے ہر ایک کو عبادات، اخلاق اور احکام شریعت کا پابند بنایا ہے۔ علم کے بغیر ان کی پابندی نہیں ہو سکتی ۔ عورت کیلیے مرد سے تعلقات کا مسئلہ بڑا اہم ہے ۔ یہ تعلقات انتہائی پیچیدہ اور بڑی نزاکت کے حامل ہوتے ہیں۔ ان میں عورت کے حقوق بھی ہیں اور ذمہ داریاں بھی جب تک اسے ان کا علم نہ ہو وہ ٹھیک ٹھیک نہ تو اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتی ہے اور نہ اپنے

حقوق کی حفاظت اس سے ہو سکتی ہے۔ فقہاء نے لکھا ہے کہ عورت اور مرد دونوں ہی کے لیے کم از کم دین کی بنیادی باتوں کا جاننا ضروری ہے۔ عورت اگر ان سے نا واقف ہو تو شوہر اسے خود بتائے گا یا کوئی ایسا انتظام کرے گا کہ وہ ان کا علم حاصل کر سکے ۔ اگر شوہر اس کا انتظام نہ کرے تو عورت خود سے انہیں سیکھنے کی کوشش کرے گی ۔ یہ اس کا ایک قانونی حق ہے۔ اس کے لیے وہ گھر سے باہر بھی اخلاقی حدود کی پابندی کیساتھ ) جاسکتی ہے۔ شوہر اس پر

پابندی نہیں لگا سکتا۔

ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ دور اول میں علم جس طرح مردوں میں پھیلا عورتوں میں بھی نام ہوا ۔ صحابہ کے درمیان قرآن و حدیث کا علم رکھنے والی خواتین کافی تعداد میں ہمیں ملتی ہیں ۔ قرآن وحدیث کی روشنی میں مسائل کا استنباط اور فتوی دینا بڑا نازک اور مشکل کام ہے۔ اس میدان میں بھی عورتیں موجود تھیں ۔ ان میں حضرت عائشہ حضرت ام سلمہ ، أم صفیہ حضرت ام حبیبہ، اسماء بنت ابو بکر، فاطمہ بنت قیس ، خولامینت تو یت وغیرہ بہت نمایاں ہیں ۔

تعلیم کی افادیت

تعلیم کی افادیت




این دور میں تعلیم کی فہ سے چا ہے زمانہ کتابی ترقی کرئے۔

آج اور تیز ترین دور میں تعلیم بہت اہمیت کا

حالانکہ آج کا دور کمپیوٹر کا دور ہے۔ ایٹمی ترقی کا دور ہے، سائنس اور صنعتی ترقی کا دور ہے مگر اسکولوں میں بنیادی عصری امہ حاصل کرنا آج کے دور کالازمی تقاضہ ہے۔

تعلیم، ٹیکنیکل تعلیم ، انجینئر تنگ ،وکالت،

حمدا رسم ہے ، اس کے ساتھ ساتھ انسان کو

جدید ضروری ہیں ہی اس کے ساتھ اہمیت اس کو انسانیت سے دوستی کے لئے اخلاقی تعلیم بھی بے حد ضروری ہے۔ اسی تعلیم کی وجہ سے زندگی میں خدا پرستی، عبادت،

محبت ، خلوص، ایثار ، خدمت خلق، وفاداری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقی تعلیم کی وجہ سے صالح اور نیک معاشرہ کی تشکیل ہو سکتی ہے۔

تعلیم کے حصول کی ایر مسایل اساتذہ بھی بے حد ضروری ہیں جو بچوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول میں مدد فراہم کرتے ہیں۔ استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبر اہو گیابلکہ استاد وہ ہے جو طلباء و طالبات کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کرتا ہے اور انہیں شعور و ادراک، علم و آگہی نیز فکر و نظر کی دولت سے مالا مال کرتا ہے۔

جن اساتدی کو بہتر طریقے سے پورا کیا ان کے شاگرد آخری سانس تک ان کے احسان مند رہتے

نے اپنی اس

ہیں۔ اس تناظر میں اگر آج کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہو گا کہ پیشہ تدریس کو بھی آلودہ کر دیا گیا ہے۔ محکمہ تعلیمات اور اسکول انتظامیہ اور معاشرہ بھی ان چار کتابوں پر قانع ہو گیا۔ کل تک حصول علم کا مقصد تعمیر انسانی تھا آج ن پر ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں پر مفاد پرست ٹولہ قصر شاہی کی م

نمبرات اور مارک

قابض رہا ہے

جن کے نزدیک اس عظیم پیشہ کی قدر و قیمت کی کوئی اہمیت نہیں رہی ہے، بد قسمتی اس بات کی بھی ہے کچھ ایسے عناصر بھی تعلیم کے دشمن ہوئے ہیں جو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے ہمارے تعلیمی نظم کے درمیان ایسی کشمکش کا آغاز کر رکھا ہے جس نے رسوائی کے علاوہ شاید ہی کچھ عنایت کیا ہو۔ مگر پھر بھی جس طرح بیرونی دنیا کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو کھتے ہیں اسی طرح مسلمان بھی کبھی جدید تعلیم سے دور نہیں رہے بلکہ جدید زمانے کے جتنے بھی علوم ہیں زیادہ تر کے بانی

مسلمان ہی ہیں۔ ساتو اندازہ ہو گا کہ آج یورپ تک کی جامعات میں مسلمانوں کی تصنیف کردہ کتابیں

نصاب میں شامل ؟


تفسیر القرآن سورہ الفاتحہ

تفسیر القرآن سورہ الفاتحہ




 آسان تفسیر

۱۰۴

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

شروع اللہ کے نام سے جو بے حد مہر بان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں ۔ (1)

الفاتحة :

(۱) اس میں اس بات کی تعلیم ہے کہ ہر جائز اور اچھا کام اللہ کے نام سے شروع کرنا چاہئے اور یہی رسول اللہ ] کا معمول مبارک تھا ، جن کاموں کو شروع کرنے کے لئے آپ صلى الله عليه وسلم سے کوئی خاص ذکر منقول ہے، اس موقع پر وہی ذکر پڑھا جائے گا، جیسے: کھانے سے پہلے ”بسم اللہ وبركة الله سونے سے پہلے ” اللهم باسمك أموت وأحيى‘ اور جانور ذبح کرتے ہوئے بسم اللہ ، اللہ اکبر اور جن مواقع پر آپ صلى الله عليه وسلم سے کوئی ذکر منقول نہ ہو، ان کو بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ

شروع کرنا چاہئے ۔ بسم اللہ قرآن مجید کی ۱۱۳ سورتوں یعنی سوائے سورۂ توبہ کے تمام سورتوں میں آیا ہے اور سورہ نمل میں جزء آیت“ کی حیثیت سے آیا ہے؛ اس لئے اس پر اتفاق ہے کہ ”بسم اللہ قرآن مجید کا جزء ہے؛ البتہ سورتوں کے درمیان جو ”بسم اللہ آیا ہے ، وہ بطور علامت و امتیاز کے ہے ، سورتوں کا جزء نہیں ہے ،حضرت عبد اللہ بن سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سورتوں کا فصل بسم اللہ کے نازل ہونے سے جانتے تھے (ابوداؤد : کتاب الصلوة ، حدیث نمبر : ۷۸۸ ) اس لئے نماز میں ” بسم اللہ کو آہستہ پڑھنا ہے نہ کہ زور سے ، حضرت انس راوی ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ ، حضرت ابوبکر ، حضرت عمر اور حضرت عثمان صلى الله عليه وسلم کے پیچھے نماز ادا کی ، یہ حضرات اپنی قراءت ( یعنی : بلند آواز میں تلاوت ) اَلحَمدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ “ سے شروع فرماتے تھے ۔ (بخاری، باب ما یقول بعد التكبير،حدیث نمبر : ۷۴۳) رحمن اور رحیم“ دونوں کے معنی عربی زبان میں رحم کرنے والے کے ہیں ، اہل علم کا خیال ہے کہ ”رحمن‘ سے دنیا کی رحمت کی طرف اشارہ ہے اور رحیم سے آخرت کی رحمت کی طرف ؛ اس لئے کہ عربی زبان میں ”رحمن“ کے وزن پر آنے والے الفاظ میں شدت اور عجلت کے معنی پائے جاتے ہیں، جیسے:’سکران‘ ( جو حالت نشہ میں ہو ) ’غضبان ( جو غصہ کی حالت میں ہو ) ظاہر ہے کہ غصہ اور نشہ نہایت شدید کیفیت کے ساتھ طاری ہوتا ہے ،لیکن اس کا اثر جلد ہی جاتا رہتا ہے ، یہی حال دنیا میں اللہ کی رحمتوں کا ہے کہ یہ رحمت شدید ہے مؤمن ہو یا کافر ، فرمانبردار ہو یا نافرمان ، سب پر رحمت خداوندی کا سایہ موجود ہے، لیکن مرنے کے ساتھ ہی یہ رحمت کی چادر اٹھالی جائے گی اور ہر ایک کے ساتھ اس کے عمل کے مطابق معاملہ ہو گا۔ رحیم کے وزن پر جو الفاظ عربی میں آتے ہیں ، ان میں دوام و پائیداری کی کیفیت پائی جاتی ہے، جیسے ”جمیل‘ خوبصورت )’کریم ‘( شریف ) وغیرہ ، خوبصورتی اور شرافت عارضی وصف نہیں ، مستقل اور پائیدار وصف ہے ، آخرت میں جن لوگوں کو رحمت خداوندی حاصل ہوگئی ، وہ سدا کے خوش نصیب ہیں، پھر کبھی محرومی نہیں ؛ اسی لئے رحیم“ سے آخرت کی نہ ختم ہونے والی رحمت کی طرف اشارہ ہے۔



الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

ساری تعریف اللہ ہی کے لائق ہے (1) جو تمام جہانوں کے پالنے والے ہیں (۲) دی بے حد مہربان اور نہایت رحم کرنے والے ہیں بدلہ کے دن کے مالک ہیں (۳) ( اے اللہ!) ہم صرف آپ ہی کی عبادت کرتے ہیں اور آپ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ (۴) ا

دود ) اگر مخلوق میں کوئی چیز قابل تعریف نظر آئے تو وہ اللہ ہی کی پیدا کی ہوئی ہے ؛ اس لئے اصل میں یہ بھی تعریف اللہ ہی کی ہے، یوں تو ہر مذہب میں خدا کی تعریف کرناسکھایا گیا ہے، لیکن چوں کہ پیغمبر اسلام صلى الله عليه وسلم کا نام نامی ہی ”احمد“ تھا، جس کے معنی ” خوب تعریف کرنے والے“ کے ہیں ؛ اس لئے آپ صلى الله عليه وسلم نے زندگی کے ہر عمل سے اللہ تعالیٰ کی حمد کو جوڑ دیا ہے، کھا کر فارغ ہوں تو اللہ کی حمد ، سوکر اٹھیں تو اللہ کی حمد ، استنجاء سے فراغت ہو تو اللہ کی حمد، چھینک آئے تو اللہ کی حمد ، یہاں تک کہ اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہو اور مزاج پرسی کی جائے تب بھی کہا جائے : ” الحمد اللہ علی کل حال“ کہ ہر حال میں اللہ کی حمد کرتا ہوں ، آپ صلى الله عليه وسلم نے جس طرح مؤمن کی زبان کو حمد الہی سے تر کیا ہے، اس کی مثال کسی اور مذہب میں نہیں ملتی ۔

(۲) تمام جہانوں میں زمین، چاند، سورج، آسمان وغیرہ بھی داخل ہیں اور مختلف مخلوقات فرشتے ، جن ، انسان اور حیوانات وغیرہ بھی ”رب‘اس ذات کو کہتے ہیں جو درجہ بہ درجہ اور مرحلہ بہ مرحلہ کسی چیز کی پرورش اور دیکھ دیکھ کرے، اللہ کو رب العالمین“ کہہ کر اس طرف اشارہ ہے کہ تمام عالم ہرلمحہ خدا کی ربوبیت کا محتاج ہے، ایسا نہیں کہ اللہ نے کائنات کو پیدا کر کے چھوڑ دیا ہو، اب از خود پورانظام کائنات چل رہا ہو اور کائنات خدا کی محتاج نہ رہی ہو ؛ جیسا کہ بعض فلاسفہ اور ملحدین کا نقطہ نظر تھا، اسی غلط خیال کی تردید کے لئے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا بار بار ذکر کیا ہے۔

(۳) مالک وہ ہے جو اپنی ملکیت میں ہر طرح کے تصرف کا اختیار رکھتا ہو، آپ پتھر کے مالک ہیں ، تو آپ کو اختیار ہے کہ اس کو مسجد کے منبر میں لگائیں یا بیت الخلاء کے فرش میں ، قیامت کے دن کا مالک ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کامل مختار ہیں ، جس کا قصور چاہیں معاف کر دیں اور جس کو چاہیں سزا دیں، اسلام سے پہلے بعض مذاہب کے ماننے والوں کا خیال تھا کہ گنہگاروں کو گناہ کی سزاد یا اللہ تعالیٰ پر واجب ہے، وہ گناہ کو معاف نہیں کر سکتا، عیسائیوں کے عقیدہ کفارہ کی بنیاد یہی ہے کہ ان کے خیال میں اللہ تعالیٰ انسانیت کے گناہ کو معاف کرنا چاہتے تھے مگر ایسا کرنا اس کے لئے روانہیں تھا؛ اس لئے (نعوذ باللہ ) مجبور ہوکر اس نے اپنے بیٹے کو دنیا میں قربانی کے لئے بھیجا؛ تا کہ وہ انسانیت کے گناہ کا کفارہ بن سکے ،قرآن مجید نے اس کی تردید کے لئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت اور بدلہ کے دن کا مکمل مالک ہے۔ (۴) عبادت میں وہ تمام باتیں داخل ہیں جو بندگی کا حصہ ہیں، یعنی: نماز سجدہ، قربانی قسم نذر، کہ یہ صرف اللہ تعالی ہی کے لئے جائز ہیں، اللہ کے سوا کسی زندہ یا مردہ کے لئے جائز نہیں ، اور دُعاء صرف اللہ ہی سے کی جائے گی ، اللہ کے ماسوا سے استمداد اور استعانت حرام ہے۔



اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَ الْمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ 

اللہ ہمیں درست راستہ پر چلائیے ، ان لوگوں کے راستہ پر جن پر آپ نے انعام فرمایا ہے ، ان لوگوں کا راستہ نہیں جن پر غضب ہوا (۲) اور نہ ان لوگوں کا جو راہ حق سے بھٹکے ہوئے ہیں ۔ (۳) ایلی

کون لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہے؟ خود قرآن مجید میں ان کا ذکر ہے کہ وہ چار ہیں : ”انبیاء، صدیقین ، شہداء اور صالحین‘ (النساء:۲۹) گویا ان کی راہ پر چلنا اور ان کی پیروی کرنا دین میں مطلوب ہے، معلوم ہوا کہ قرآن مجید نے جہاں کہیں آباء واجداد کی اتباع سے منع کیا ہے، اس سے وہ آباء واجداد مراد ہیں ، جو حق راستے سے ہٹے ہوئے تھے ، جو لوگ راہ حق پر ثابت قدم تھے، ان کی راہ پر قائم رہنے کی تو دُعاء کرائی گئی ہے، اسی سے ائمہ مجتہدین کی تقلید کا جائز ہونا ثابت ہوتا ہے؛ کیوں کہ وہ

صالحین میں تھے۔ (۲) انسان کی گمراہی کا ہمیشہ دو میں سے ایک سبب ہوتا ہے، حق اور سچائی کی تلاش میں کوتاہی اور اس کی وجہ سے نادانستہ گمراہی کا ارتکاب’ضالین‘ سے یہ لوگ مراد ہیں ، دوسرے سچائی کو جاننے کے باوجود اس کا انکار، ایسے لوگ غضب شدید کے مستحق ہوتے ہیں، یہ مغضوب علیہم ہیں ، قرآن مجید نے ان دونوں گروہوں کی غلطی سے بچانے کے لئے دُعاء سکھائی ہے، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”مغضوب علیہم“ کا مصداق یہود اور ضالین سے مراد عیسائی ہیں ، ( مجمع الزوائد : ۳۱۴/۶، بحوالہ مسند أحمد، نیز دیکھئے صحیح ابن حبان : ۱۸۴/۱۶ ، عن عدی بن حاتم ) اس کا مقصود یہ ہے کہ مغضوب گروہوں اور قوموں میں ایک یہود اور گمراہوں اور ضالین میں ایک عیسائی ہیں ، نہ یہ کہ صرف یہی قومیں اس سے مراد ہیں، اور ایسا آپ نے اس لئے ارشاد فرمایا کہ عیسائیوں نے نبی برحق حضرت مسیح کے سلسلے میں افراط سے کام لیا اور ان کو رسول اللہ سے ” ابن اللہ ( خدا کا بیٹا ) بنا دیا؛ اس لئے وہ گمراہ ہوئے اور ضالین کے زمرہ میں داخل ہوئے ، یہودیوں نے اللہ کے پیغمبروں کے ساتھ تفریط کی ، ان کی ایذاء رسانی اور اہانت کے درپے ہوئے ؛ اس لئے بار بار اللہ کے غضب کا شکار ہوئے ، گویا اُمت کو دونوں باتوں سے منع فرمایا گیا ، اس سے بھی کہ اللہ کے نیک بندوں کے معاملہ میں افراط اور مبالغہ سے کام لیا جائے ، کہ یہی گمراہی کا پیش خیمہ ہے، اور اس سے بھی منع کیا گیا کہ ان کے بارے میں اہانت و تحقیر کا رویہ اختیار کیا جائے؛ کہ یہ خدا کے غضب کو دعوت دینا ہے۔ (۳) سورۂ فاتحہ کے ختم پر آمین کہنا مسنون ہے، اس کے معنی ہیں : ”اے رب ! قبول فرما لیجئے ابو میسرہ سے مروی ہے کہ حضرت جبرئیل نے آپ کو سورہ فاتحہ پڑھائی ، جب وَلَا الضَّالِينَ “ پر پہنچے تو کہا کہ آپ آمین کہیں ؛ چنانچہ آپ صلى الله عليه وسلم نے آمین کہا ، (مصنف ابن أبي شيبة ، باب ما ذكر في آمين الخ ، حدیث نمبر : ۸۰۴۴) اس سے معلوم ہوا کہ نماز کے باہر بھی ”آمین“ کہنا مسنون ہے، نماز میں امام اور مقتدی دونوں آمین کہیں گے ، حدیث میں آمین کا زور سے کہنا بھی منقول ہے اور آہستہ کہنا بھی؛ اس لئے دونوں طرح آمین کہنا درست ہے؛ البتہ آہستہ کہنا افضل ہے؛ کیوں کہ ”آمین“ بالا تفاق دعاء ہے اور قرآن مجید نے دُعاء کا ادب یہی بتایا ہے کہ آہستہ کی جائے ، وَادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً“۔ (اعراف: ۵۵)

تعلیم کے بعض شعبے اور مسلمان

 



اللہ تعالیٰ نے دوسری مخلوقات کے مقابلہ میں انسان کو جن امتیازی صلاحیتوں سے نوازا ہے، ان میں سے ایک اہم صفت یہ ہے کہ اس کے اندر علم کو حاصل کرنے کی صلاحیت ہے، علم کی اہمیت کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں خود اپنی صفت علم کا کم سے کم دوسو بارہ مواقع پر ذکر فرمایا ہے، حضرت آدم علیہ السلام کو جو اس دنیا کی خلافت عطا کی گئی ہے، وہ اسی لئے کہ ان کے اندر معلومات کو اخذ کرنے کی صلاحیت تھی ؛ چنانچہ حق تعالی کی طرف سے فرشتوں کے ساتھ ان کا امتحان لیا گیا اور بارگاہ الہی میں ہونے والے اس امتحان میں پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام کامیابی سے ہمکنار ہوئے ، حضرت آدم علیہ السلام کو اللہ کی جانب سے کن کن چیزوں کا علم عطا فرمایا گیا تھا؟ قرآن مجید نے اس سلسلہ میں مختصر لیکن جامع بات کہی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کو تمام اسماء ( ناموں ) کے علم سے نوازا گیا تھا وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَائَ كُلَّهَا (بقره: ۱۳) اسم کے معنی تو صرف نام کے ہیں جو کسی شئے کی نشاندھی کرتی ہے ؛ لیکن بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ اس سے مراد صرف نام نہیں ہے؛ بلکہ کائنات کی وہ تمام چیزیں ہیں، جن کے نام رکھے جاسکتے ہیں، گو یا علم کا جو خفی خزانہ جہالت کے پردے سے نکل نکل کر باہر آرہا ہے اور جو قیامت تک آتارہے گا، جن کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے انسان مختلف ناموں سے موسوم کرتا ہے، ان ساری چیزوں کا علم حضرت آدم علیہ السلام کی فطرت میں رکھ دیا گیا ہے، جن کا ہر دور کی ضرورت کے اعتبار سے ظہور ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا۔

اسلام کی نظر میں بنیادی طور پر علم کی دو قسمیں ہیں، ایک : وہ علم جو انسان کے لئے نفع بخش ہو، خواہ دنیا کے لئے ہو یا آخرت کے لئے اور دوسرے: وہ علم جو بے فائدہ ہو، پہلا علم مطلوب ہے اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے ، اور دوسری قسم کا علم مذموم اور ناپسندیدہ ہے؛ چنانچہ آپ انے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے علم نافع کی دُعا کیا کرو اور بے فائدہ علم سے اللہ کی پناہ چاہو:’سلواعلمآنافعاً،وتعوذوا بالله من علم لا ينفع “ (سنن ابن ماجہ، عن عبد اللہ بن جابر ، حدیث نمبر : ۳۴۸۳) -- آج کل انسان کی ہلاکت و بر بادی اور دنیا کو تباہ و تاراج کرنے کے جو ہتھیار تیار کئے جارہے ہیں، یہ یقینا بے فائدہ علم میں شامل ہیں اور سوائے اس کے کہ کوئی ملک دفاع کے لئے اس پر مجبور ہو جائے ، اس کو اپنے وسائل تعمیری مقاصد کے بجائے ایسے تخریبی کاموں میں خرچ نہیں کرنا چاہئے ، مغربی طاقتیں جس طرح اپنی بہترین صلاحیتیں مہلک ہتھیاروں کے بنانے میں خرچ کر رہی ہیں ، یقیناً ان کو بد بختی کہا جائے گا۔

اللہ تعالیٰ نے علم کی خصوصیت یہ رکھی ہے کہ جیسے ایمان انسان کے لئے بلندی کا ذریعہ ہے، اسی طرح علم بھی افراد اور قوموں کی سر بلندی و سرخروئی کی کلید ہے: يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا العِلمَ دَرَجَتٍ ( مجادلہ: 11) جولوگ علم سے آراستہ ہوں یا جو قوم علم و دانش کی دولت سے مالا مال ہو، وہ اور جو افراد اور قو میں علم سے محروم ہوں ، دونوں برابر نہیں ہو سکتے : قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (الزمر: 9) علم کی ضرورت جہاں آخرت کی کامیابی کے لئے ہے، وہیں دنیا میں باعزت زندگی گزارنے اور بہتر مرتبہ ومقام حاصل کرنے کے لئے بھی ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیائی میں حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کو نبوت کے ساتھ ساتھ حکومت اور حکمرانی کے سلیقہ سے بھی نوازاتھا اور مخلوقات سے متعلق بعض ایسے علوم دیئے گئے تھے، جہاں تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہوتی ، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہا السلام اس پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ علم کی اس دولت سے نواز کر اللہ نے ہمیں بہت سارے مسلمان بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے: وَقَالَا الحَمدُ لِلهِ الَّذِي فَضَّلْنَا عَلَى كَثِيرٍ من عِبَادِهِ المُؤمِنِينَ ((امل: ۱۵) دنیا میں اقتدار میں شرکت، کاروبار حکومت میں شمولیت اور نظم و نسق کی انجام دہی میں بھی علمی بصیرت اور معلومات کا مہیا ہونا ضروری ہے، اسی لئے حضرت یوسف علیہ السلام نے جب مصر کے حکمراں سے پیشکش کی کہ جو اقتصادی بحران مستقبل میں آنے والا ہے اور جو بظاہر پورے ملک کو دانہ دانہ کا محتاج بنادے گا، اس سے نبرد آزما ہونے کے سلسلہ میں، میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں اور آپ کے خزانہ کی ذمہ داری سنبھال سکتا ہوں ،تو اس پیشکش کے ساتھ آپ نے یہ دلیل دی کہ میرے اندر سرکاری خزانے کی حفاظت و نگہداشت کی صلاحیت بھی ہے اور میں علم کی دولت سے بہرہ ور بھی ہوں: اجْعَلْنِي عَلَى خَزَائِنِ الأَرْضِ إِنِّی حَفِيظٌ عَلِیم (یوسف: ۵۵)

حکومت واقتدار کی اہمیت ہر ملک میں ہے، لیکن جہاں مسلمان اقلیت کی حیثیت سے رہتے ہوں ، وہاں اقتدار میں ساجھے داری اور سرکاری نظم و نسق میں شمولیت مسلمانوں کے ملی بقاء کے لئے بے حد ضروری ہے؛ کیوں کہ عام طور پر اکثریت چاہتی ہے کہ وہ اقلیت کو ہضم کر جائے ، اس کے تشخص کو مٹادے تعلیمی اور معاشی اعتبار سے اس کو پنپنے کا موقع نہیں دے، ہندوستان میں مسلمان اس وقت اسی صورت حال سے دو چار ہیں ، ان کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی ضرب المثل بن چکی ہے، جس قوم نے اس ملک پر صدیوں حکومت کی ، وہ آج ایک بے تو قیر گروہ کی حیثیت سے زندگی کا سفر طے کر رہی ہے، اس صورت حال سے نکلنے کے لئے جہاں دین سے گہری وابستگی اور باہمی اتحادضروری ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ یہ امت علم وتحقیق کے میدان میں آگے بڑھے اور زندگی کے مختلف میدانوں میں موثر کردار ادا کرنے کے لائق بن جائے۔

اللہ تعالیٰ کا شکر و احسان ہے کہ مسلمان مختلف حادثات سے سبق حاصل کرتے رہے ہیں اور جب بھی کوئی مصیبت اس پر آئی ہے، غم زدہ ہونے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ایک نئے حوصلہ کے ساتھ قدم بڑھایا ہے تقسیم ہند کے بعد سے جب فرقہ وارانہ حملہ شروع ہوا، پولیس اور فسادیوں نے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلنے کا سلسلہ شروع کیا، تو ۱۷۹۱ ء تک مسلمانوں کی یہ کیفیت رہی کہ لوگ فسادیوں کا مقابلہ کرنے کے بجائے راہ فرار اختیار کرتے اور بہت سی دفعہ ان کی منزل موجودہ بنگلہ دیش کی سرزمین ہوتی ، وہ اس کو اپنے لئے ایک گوشہ عافیت تصور کرتے ، لیکن جب پاکستان کی ناعاقبت اندیشی کے نتیجہ میں بنگلہ دیش بن گیا تو انھوں نے محسوس کر لیا کہ بہر حال ان کو اب اس ملک میں جینا اور مرنا ہے؛ اس لئے انھوں نے حوصلہ و ہمت کو جمع کیا اور اس کی وجہ سے فسادات کے نتائج اور آبادی کے ارتکاز میں ایک مثبت تبدیلی ظاہر ہونے لگی، پھر ۲۷۹۱ء میں جب حکومت ہند نے متبنی سے متعلق ایک ایسا قانون لانے کی کوشش کی جو شریعت اسلامی سے متصادم تھا اور مسلمانوں نے محسوس کیا کہ حکومت جان و مال کے بعد اب مسلمانوں کے دین و شریعت پر بھی ہاتھ ڈالنا چاہتی ہے، تو انھوں نے اپنے باہمی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ساتھ بیٹھنے اور مشترکہ مسائل کے لئے متحدہ جد و جہد کرنے کا سبق سیکھا اور اس طرح آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ جیسا متحدہ پلیٹ فارم وجود میں آیا۔ ۲۹۹۱ء میں بابری مسجد کی شہادت کا وہ اندوہ ناک واقعہ پیش آیا، جس نے پوری ملت اسلامیہ کو ہلا کر رکھ دیا، ان حادثات کے بعد مسلمانوں نے ایک نئی کروٹ لی، انھوں نے محسوس کیا کہ ان کو قصداً انصاف سے محروم رکھا جاتا ہے اور وہ خود اپنی جدوجہد کے ذریعہ ہی اس ملک میں ایک باوقار امت کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں؛ چنانچہ ملک کے مختلف علاقوں میں تعلیمی اور معاشی جدوجہد شروع ہوئی ،مسلمانوں نے سرکاری ملازمت پر تکیہ کرنے کے بجائے تجارت، چھوٹی صنعت اور بیرون ملک ملازمت پر توجہ دی، غیر سودی قرض کے ادارے قائم کئے اور ان کے ذریعہ مسلمانوں کو روزگار کے اعتبار سے خود مکتفی بنانے کی کوششیں کی گئیں ، بحمد اللہ ان کوششوں کے بہتر اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ تعلیم کی طرف بھی مسلمانوں کی توجہ بڑھی ہے، انھوں نے پرائمری سے لے کر ڈگری اور پی جی کی سطح کے ہزاروں ادارے قائم کئے ہیں، ملک کے مختلف حصوں میں اور خاص کر جنوبی ہند میں پیشہ ورانہ تعلیم کے بہت سے ادارے قائم کئے ، اب ہزاروں کی تعداد میں مسلمان طلبہ میڈیکل انجینئر نگ، ایم بی اے، ایم سی اے اور آئی ٹی وغیرہ کی سندیں لے کر نکل رہے ہیں، اگر چہ اعلی تعلیم کے بیشتر ادارے ملک کے جنوبی علاقہ میں قائم ہیں ، لیکن ان کا فائدہ پورے ملک کے نوجوان مسلمانوں کو پہنچ رہا ہے، یہ یقینا ایک خوش آئند بات ہے اور امید ہے کہ مستقبل میں اس کے بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔ لیکن غور کرنے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ عصری تعلیم کے جن شعبوں کی طرف مسلمانوں کی توجہ بڑھی ہے، عام طور پر اس کا فائدہ ان کی ذات یا ان کے خاندان کو پہنچ سکے گا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس دور میں خاندان کا تصور بہت محدود ہو گیا ہے، بیوی بچوں کے سوا بمشکل والدین کو اس میں شامل کیا جاتا ہے، بھائی بہن کا تو ذکر ہی کیا ہے تعلیم کے ان شعبوں سے فارغ ہونے والے نوجوان اپنے آپ کو سکہ ڈھالنے کی مشین سمجھتے ہیں، قومی وملی مسائل سے ان کو کوئی سروکار نہیں ہوتا؛ اس لئے یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کی تعلیم ملت کو کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچا رہی ہے ؛ بلکہ جولوگ ایسے نوجوانوں پر بطور تعاون اپنا سرمایہ خرچ کرتے ہیں، وہ بھی محسوس کرنے لگے ہیں کہ ملک کا جو سر مایہ ان پر خرچ کیا جارہا ہے، ملت کو اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں پہنچ رہا ہے اور ایک ایسا گروہ تیار ہورہا ہے جس کی اکثریت خود غرضی اور مادہ پرستی میں مبتلا ہو جاتی ہے، کاش کہ جو عظیمیں تعلیم کے ان شعبوں میں نوجوانوں کو امدادفراہم کرتی ہیں ، وہ ان کی اخلاقی اور فطری تربیت کی طرف بھی توجہ دیں۔ لیکن اس وقت ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ عصری تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو ان شعبوں میں لایا جائے ، جو فکر سازی ، ملت کے مسائل کی ترجمانی، انصاف کے حصول اور ان کے نظم و نسق میں شمولیت کو آسان بنا سکیں، اس سلسلہ میں خصوصی طور پر بعض شعبوں کا ذکر کرنا مناسب ہوگا، جیسے قانون کا شعبہ ہے، سپریم کورٹ میں اچھے مسلم وکلاء جن کا عدالت میں وزن محسوس کیا جائے نہ کے برابر ہیں، ہائی کورٹوں کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں ہے؛ اس لئے عدالتوں میں مسلمان ججس کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے، بعض لوگوں کا احساس ہے کہ ملک کا یہ سب سے معزز ترین ادارہ فرقہ پرستی کے زہر سے مسموم ہوتا جا رہا ہے اور بعض دفعہ انصاف کو شرم سار ہونا پڑتا ہے، اگر قانون کے شعبہ میں ہماری موثر نمائندگی نہیں رہے گی تو ہمارے لئے انصاف کی جنگ جیتنا دشوار سے دشوار تر ہوتا چلا جائے گا۔

اسی طرح موجودہ دور میں ذرائع ابلاغ، بالخصوص انگریزی اور مقامی زبان کے میڈیا کی بڑی اہمیت ہے، اس کے بغیر پروپیگنڈہ کی جنگ میں عزت و آبرو کا بچانا مشکل ہے، ایسے انگریزی دانوں کی بھی ضرورت ہے، جن کو انگریزی کے معتبر ادیب اور مصنف کا درجہ حاصل ہو اور قومی سطح پر ان کو پذیرائی حاصل ہو، ڈاکٹر جسم کا علاج کر سکتا ہے، انجینئر بلڈنگیں اور مشینیں بنا سکتا ہے؛ لیکن فکر سازی کا کام اچھے جرنلسٹ اور باصلاحیت مصنف اور ماہر تاریخ داں کے ذریعہ ہی انجام پاسکتا ہے، لیکن ان شعبوں سے مسلمان طلبہ کئے ہوئے ہیں اور اسی لئے مسلمانوں میں عصری علوم کے حامل ایسے ماہرین نہیں رہے، جو مسلمانوں کے نقطہ نظر کو دلیل، زبان و بیان کی قوت منطقیت و معقولیت اور خوش سلیقگی کے ساتھ پیش کر سکیں ، ذرائع ابلاغ مسلمانوں کے تئیں ایسا کردار ادا کرتے ہیں کہ گویا وہ مسلمانوں کے بالمقابل اپوزیشن ہوں ، تاریخ ایسی مرتب کی جارہی ہے جس میں مسلمانوں سے متعلق نفرت کے جذبات ابھارے جارہے ہیں، زبان و بیان کے اعتبار سے معیاری اور مقبول کتابیں اس انداز کی آرہی ہیں جو اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں غلط فہمیوں کو جنم دیتی ہیں۔ خاص طور پر سول سروسیز کا ذکر کروں گا ، جس میں مسلمانوں کا تناسب نہایت حقیر ہے اور یہ تعداد کی کمی اس لئے نہیں ہے کہ مسلمان کی زیادہ تعداد شریک ہوتی ہو اور نسبتا کم تعداد کامیاب ہوتی ہو؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ امتحان میں شریک ہونے والے مسلمان امید واروں ہی کی تعداد کم ہوتی ہے اور شرکت کے اعتبار سے کامیابی کا تناسب عام طور پر وہی ہوتا ہے، جو اکثریت کا ہے، اس سے معلوم ہوا کہ مسئلہ کم صلاحیت ہونے کا نہیں ہے بلکہ کم ہمتی، پست حوصلگی اور جدو جہد میں کمی کا ہے، نیز مزاج یہ بن گیا ہے کہ اعلیٰ ترین منزل پر پہنچنے کے بجائے اس مرحلہ پر اکتفا کر لیا جائے، جس سے کمائی ہونے لگے اور مرفہ الحالی حاصل ہو جائے؛ حالاں کہ جو لوگ اس مقام تک پہنچتے ہیں، وہ ملت کو انصاف دلانے میں ایک اہم رول ادا کر سکتے ہیں اور سیاسی نمائندوں سے بھی بڑھ کر وہ قوم وملت کے لئے اپنی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔

اس لئے ضرورت ہے کہ اب تعلیم کے ان شعبوں کی طرف توجہ دی جائے، نوجوانوں کی اس سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی جائے اور انھیں اس لائق بنا یا جائے کہ ان کی صلاحیت کا فائدہ صرف ان کی ذات یا ان کے خاندان تک محدود نہ رہے؛ بلکہ پوری ملت کو ان کا نفع پہنچے، وہ صرف نوٹ چھاپنے والی مشین بن کر نہ رہ جائیں ؛ بلکہ وہ ملت کی سرفرازی و سرخروئی کا ذریعہ بنہیں۔

Copyright @ 2013 مکتب ايم ايف اکيڈمی.

Distributed By Blogger Themes | Designed by Templateism | TechTabloids